قاہرہ: مصری حکام نے آج بروز منگل 20 اگست کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے معزول صدر محمد مرسی کی پارٹی کی احتجاجی مہم کو کچلنے کے لیے اخوان المسلمون کے ایک اعلیٰ سطح کے رہنما کو گرفتار کرلیا ہے۔
یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی ہے جب کہ مصر آگ و خون کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور مرسی کے مذہب پرست حمایتیوں کے درمیان ملکی سطح پر جاری تصادم کے دوران اب تک تقریباً 900 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
حالیہ خونریزی جزیرہ نما سینا میں ہوئی تھی، جس میں دہشت گردوں نے 25 پولیس اہلکار وں کو ہلاک کردیا تھا، اس سے کچھ گھنٹے قبل ہی اخوان المسلمون کے 37 قیدی پولیس کی حراست میں ہلاک ہوئے تھے۔
مصر کی وزارت داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس نے اخوان المسلمون کے سربراہ 70 برس کے محمد بدیع کو رباع الاعداویہ اسکوائر سے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ ہفتے بدھ کے روز مرسی کے 200 حمایتی اُس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب پولیس ان کے احتجاجی کیمپ کو ہٹانے کی کوشش کررہی تھی۔
بی بی سی کے مطابق محمد بدیع کی گرفتاری سے ایک دن پہلے ان کے بیٹے عمار بدیع کو قاہرہ کے رعمسیس چوک میں مظاہرے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
مصر ی حکام جنہیں فوج کی پشت پناہی حاصل ہے، بدیع سمیت اخوان المسلمون کی تنظیم کے سینیئر اراکین پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو پُرتشدد احتجاج پر اکسارہے ہیں، جس میں لوگوں کی ہلاکتیں ہورہی ہے۔
جبکہ عدالتی ذرائع نے کہا ہے کہ مصر کے معزول صدر محمد مرسی کو نئے الزام میں 15 روز کے لیے جیل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ ایک خفیہ مقام پر کی گئی سماعت میں ان پر گزشتہ برس دسمبر میں صدارتی محل کا گھیراوٴ کرنے والے مظاہرین کے خلاف بے جا طاقت کے ا ستعمال کا الزام عائد کیا گیا۔
دوسری جانب سابق صدر حسنی مبارک کو ان کے خلاف قائم چار مقدمات میں تین سے جزوی طور پر بری کردیا گیا ہے، لیکن چوتھے مقدمے میں وہ تاحال زیرحراست ہیں۔
مصر میں جاری خونریزی کا ایک خوفناک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب دہشت گردوں نے کل بروز پیر سینا میں پولیس کی دو بسوں پر راکٹ سے حملہ کیا۔ اپنی نوعیت کے اس ہلاکت خیز حملے کی مثال مصر کے اندر کئی دہائیوں میں نہ ملے گی۔
مصر کی وزارت داخلہ نے اس حملے کا الزام مسلح دہشت گرد گروپ پر عائد کیا ہے، حکام نے بعد میں یہ بھی کہا کہ فلسطین کی غزہ پٹی کے ساتھ سرحد کو بند کردیا جائے گا، جہاں یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر کے جنوبی شہر العریش شہر میں ایک اور پولیس اہلکار کو قتل کردیا گیا، چنانچہ جب سے مرسی کو فوج نے معزول کیا ہےاس وقت سے سینا میں ہلاک ہونے والے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی کل تعداد 75 ہوگئی ہے۔
سینا میں پولیس اہلکاروں پر کیا جانے والا حملہ اخوان المسلمین کے 37 اراکین کی زیر حراست ہلاکت کے جواب میں تھا، جنہیں قاہرہ کے شمال میں واقع ایک جیل میں منتقل کیا جارہا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب ان پر پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے تھے، پولیس اپنے ایک آفیسر کو ان کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی، جن کو اخوان سے تعلق رکھنے والے قیدیوں نے یرغمال بنالیا تھا۔
اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ وہ اپنی احتجاجی مہم کو معطل کردیں گے اگر معزول صدر مرسی کو رہا کردیا جائے اور ہلاکتوں کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر ان پر مقدمہ چلایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی بغاوت کے مخالفین کو جان بوجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں نشانہ بنا کر بے رحمی سے ہلاک کیا جارہا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصر میں پُرتشدد احتجاج میں ہونے والی ہلاکتوں پر گہری تشویش ہے اور انہوں نے زور دیا کہ ان واقعات کے تمام حقائق کا پتہ لگانے کے لیے مکمل تحقیقات کروائی جائیں۔
بدامنی کی حالیہ لہر فوجی سربراہ عبدالفتح السیسی کے اس بیان کے چند گھنٹوں کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے سیکیورٹی فورسز سے کہا تھا کہ وہ احتجاج کرنےوالوں کی طرف سے کسی بھی تشدد کا پوری قوت کے ساتھ جواب دیں۔
السیسی نے کہا تھا ”ملک کو تباہ کیا جارہا ہو تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔“ انہوں نے ملک گیر احتجاج کے بعد مرسی کی ایک سالہ حکمرانی کا خاتمہ کرکے ملکی اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔
مصر کے وزیر خارجہ نیبل فہمی نے پیر کو سوڈان میں کہا تھا کہ ان کا ملک اس وقت صحیح راستے پر ہے۔ جبکہ عالمی برادری مصر میں جاری تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کررہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس خونریزی کی مذمت کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے مصر کے حکمرانوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر پولیس کو دیے گئے وہ احکامات واپس لے لیں جن میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہلاکت خیز اسلحے کا استعمال کریں۔
اس تنظیم کے سیکریٹری جنرل صلیل شہتی نے مصر کی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ملک میں انسانی حقوق کے صاف ستھرے ریکارڈ پر داغ لگادیا ہے۔
یورپی یونین کے سفیروں کو ان کی گرمیوں کی چھٹیوں سے واپس طلب کرلیا گیا تھا تاکہ مصر میں جاری تشدد کا یورپی بلاک کی جانب سے جواب دینے کے لیے برسلز میں وزرائے خارجہ کے ساتھ بدھ کو ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔
یورپی یونین نے تقریباً پانچ ارب یورو (چھ اعشاریہ سات ارب ڈالرز) کی امداد کا وعدہ کیا تھا، لیکن مرسی کی معزولی کے بعد جاری صورتحال کو دیکھتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔
امریکا نے بھی مصر کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں معطل کردی ہیں، لیکن ایک اعشاریہ تین ارب ڈالرز کی سالانہ امداد کی جزوی معطلی کو روک دیا ہے۔
امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے مصر کی عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مصالحت کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ واشنگٹن کا اثرورسوخ محدود ہوگیا ہے۔
تاہم عالمی برادری کا ردّعمل یکساں طور پر تنقیدی نہیں ہے، سعودی عرب اور اردن دونوں ہی نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مصری حکومت کی پشت پناہی کا اعلان کیا ہے۔
جبکہ اسرائیل کے ایک اہلکار نے مغرب پر زور دیا ہے کہ وہ مصر کی فوج کی حمایت کرے۔ انہوں نے یروشلم پوسٹ کو بتایا کہ ”اب اس گیم کا نام جمہوریت نہیں رہا۔“
مصر کی فوجی قیادت نے 1954ء میں اخوان المسلون کو باقاعدہ طور پر تحلیل کر دیا تھا تاہم مارچ میں اس نے خود ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر دوبارہ رجسٹر کرالیا تھا۔
1928ء میں حسن البنا کی زیر قیادت وجود میں آنے والی اس تنظیم کی صوبوں میں جڑیں انتہائی مضبوط ہیں اور اس نے 2011ء میں خود کو قانونی طور پر فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کرالیا تھا۔
اس کے بعد 2011 ءمیں ہی ایک منظم تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت ختم کر کے ملک میں پہلی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔
مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اخوان نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن مرسی نے ابھی ایک سال ہی حکومت کی تھی کہ عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر کیے گئے احتجاج کے بعد ان کی حکومت ختم کر کے فوج نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔
فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے مصر کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے تین جولائی کو ان کی حکومت برطرف کی۔