پاکستان

کیا پولیو کے قطرے دیگر حفاظتی ٹیکوں کے ساتھ پلائے جاسکتے ہیں؟

بچہ جب تک مکمل محفوظ نہیں ہوجاتا، اسے پولیو لاحق ہونے کا خطرہ برقرار رہتا ہے، اس لیے ہر مہم کے دوران قطرے ضرور پلوانے چاہئیں۔

پاکستان میں رواں سال کی آخری انسداد پولیو مہم کا آغاز 10 دسمبر سے صوبہ خیبرپختونخوا میں ہوگیا ہے جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں 13 دسمبر سے یہ مہم جاری ہے۔

پورے ملک کے 156 اضلاع میں 2 لاکھ 90 ہزار سے زائد رضا کار پانچ سال سے کم عمر کے 4 کروڑ سے زائد بچوں کو انسداد پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی مہم کا حصہ ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان میں یہ خطرناک وائرس اب بھی موجود ہے اور اس کے مکمل انسداد کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو ہر بار قطرے پلانے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، نہ صرف اپنے بچوں کو بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس طرف راغب کرنے کی سعی کرنے چاہیے، تب ہی ہم اپنے بچوں کو زندگی بھر کے لیے معذور کردینے والے اس مہلک وائرس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

کیا روبیلا، خسرہ کے حفاظتی ٹیکے لگانے کے فوری بعد پولیو قطرے پلائے جاسکتے ہیں؟

گزشتہ ماہ نومبر میں ہی ملک بھر میں 9 ماہ سے 15 سال تک کے بچوں کو گھر گھر جاکر انسداد روبیلا اور خسرہ کے حفاظتی ٹیکے بھی لگائے گئے اور اس تناظر میں اب شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم پر والدین کی جانب سے ہچکچاہٹ اور تحفظات سامنے آسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یونیسیف کو پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی اُمید

والدین کے انہی تحفظات کی روشنی میں ہم نے معروف ماہر اطفال پروفیسر جلال اکبر اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر خالد شفیع سے رابطہ کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کے قطرے بالکل محفوظ ہیں اور انہیں روبیلا، خسرہ کے حفاظتی ٹیکوں کے ساتھ اور بعد میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر جلال اکبر کا کہنا تھا کہ پولیو ایک خطرناک اور مہلک وائرس ہے جو ہماری نئی نسل کو معذور کرسکتا ہے، اسی خطرے کے پیش نظر ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے انسداد پولیو مہم میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی بھی پس و پیش سے کام لیے بغیر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلانے چاہئیں۔

کیا پولیو کے قطرے ایک بار دینا کافی نہیں؟

جب بھی انسداد پولیو مہم شروع ہوتی ہے تو والدین کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے بچوں کو ہر دو تین ماہ بعد پولیو کی ویکسین بار بار کیوں پلائی جاتی ہے، کیا اس کے مضر اثرات ہوتے ہیں اور کیا دیگر موذی بیماریوں کی طرح انسداد پولیو کی ویکسین ایک بار دینا کافی نہیں ہوتی؟

حکام صحت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بچے کو پولیو سے بچانے کے لئے اورل پولیو ویکسین (OPV) متعدد بار پلوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو پولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لئے کتنی خوراکیں درکار ہیں، بچے کی اپنی صحت، جسم میں کسی قسم کی غذائی کمی کے ہونے یا نہ ہونے کے علاوہ اس بات پربھی منحصر ہوتا ہے کہ مزید کتنے دیگر وائرس ایسے ہیں جن کے خطرے سے بچہ دوچار ہے۔

مزید پڑھیں: پولیو ویکسین پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں کمی کے باوجود چیلنج برقرار

بچہ جب تک مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوجاتا،یعنی کہ پانچ سال کی عمر تک اسے پولیو لاحق ہونے کا خطرہ برقرار رہتا ہے، یہی صورت حال اس بات کی اہمیت پر زور دیتی ہے کہ ہر انسداد پولیو ویکسی نیشن مہم کے دوران تمام بچوں کو قطرے ضرور پلائے جائیں۔ ہر وہ بچہ جسے انسداد پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پلائے گئے وہ اس مہلک وائرس کی افزائش اور پھیلاؤکی وجہ بن سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق صرف ایک بار ویکسین لینے سے بچہ معذور ہونے یا پولیو وائرس سے متاثر ہونے سے بالکل محفوظ نہیں ہوسکتا کیونکہ لاکھوں مختلف اقسام کے وائرس بچوں کی آنتوں کو متاثر کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ خطرناک بات یہ بھی ہے کہ ساتھ ہی متاثرہ بچہ دیگر بچوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہر بار منہ کے ذریعے پلائے جانے والے پولیو سے بچاؤ کے قطرے بچوں کو پلائے جائیں۔

ماہرین صحت کہتے ہیں کہ منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین بچوں کی آنتوں اور بچوں کے خون میں پائی جانے والی خلیات سمیت ان کی قوت مدافعت کے لیے بہتر ین ہوتی ہے ،منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین بچے کی آنت کے اس حصے کو بند کردیتی ہے جو کسی بھی باہر کی چیز کو وصول کرکے اسے جسم میں آگے منتقل کردیتا ہے اور ساتھ ہی وہ ’وائلڈ پولیو وائرس‘ (ڈبلیو پی وی) کو بھی بلاک کردیتی ہے اور بچہ مزید معذور ہونے سے بچ جاتا ہے،یہ پولیو کے قطرے نہ صرف آنتوں اور خون میں موجود خلیات کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتےہیں بلکہ یہ بچوں کو آنے والے وقت میں پولیو وائرس سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔اس لیےکوئی بچہ انسداد پولیو کے قطرے جتنی بار پیے گا اتنا ہی اس کا مدافعتی نظام مضبوط سے مضبوط ہوگا۔

پولیو کے قطرےنومولودکو کیوں پلوائیں؟

پاکستان کے اکثر دیہی علاقوں اور خاص طور پر بلوچستان کے مختلف حصوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین اپنے نومولود کو نہیں پلواتے، انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اس سے بچے پر مضر اثرات مرتب ہوں گے جبکہ پیدا ہونے والے لڑکوں کے حوالے سے والدین نہایت فکر مند ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پینے سے ان کے بچے ’’نامرد‘‘ بن جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:پولیو ویکسین کی کہانی: اس میں ایسا کیا ہے جو ہر سال 30 لاکھ زندگیاں بچاتی ہے

والدین کے ان خدشات اور تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے معروف ماہرِ امراضِ اطفال، صدر ایشیا پیسفک پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن پروفیسر اقبال میمن کہتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش کے فوری بعد انہیں او پی وی فراہم کی جانی چاہیے، اسے ڈوز زیرو (صفر) کہا جاتا ہے، جس کے بعد 6، 10 اور 14 ہفتوں کے بعد ویکسین دی جاتی ہے، بعد ازاں انہیں ہر مرتبہ سلسلہ وار مہمات کے دوران ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے'۔پروفیسر اقبال میمن کا کہنا تھا کہوالدین اس بات کا مکمل اطمینان کرلیں کہ نومولود کو پلائے جانے والے پولیو کے قطروں کے کسی قسم کی مضر اثرات اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ قطرے ان کے بچوں کی صحت کیلئے مفید اور دیگر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا کرتے ہیں۔

پاکستان ’پولیو فری ‘ہونے کے قریب!

گلوبل پولیو اریڈیکیشن انیشیٹو کے اعداد و شمار کے مطابق 1988ء تک دنیا کے 125ممالک میں پولیو کے3 لاکھ 85 ہزار سے زائد کیسز موجود تھے مگر انسداد پولیو مہمات کے سبب سال 2000ء میں پولیو کا مرض20 ممالک تک محدود رہ گیا تھا اور صرف 3 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے،سال2005ء میں 16ممالک سے تقریباً2ہزار کیسز منظرِ عام پر آئے جب کہ2013ء میں8 ملکوں سے416 کیسز رپورٹ کیے گئے, 2015ء میں پوری دنیا میں74اور 2018ء میں صرف 33 کیسز رپورٹ ہوئے۔

عالمی ادارے کے مطابق اس وقت صرف پاکستان اور افغانستان کے سوا تمام دنیا کے ممالک پولیو جیسے موذی مرض سے چھٹکارا حاصل کرچکے ہیں جبکہ گزشتہ سال افریقی ملک نائجیریا کو پولیو فری قرار دیا گیا تھا۔

پاکستان میں سال 2014ء میں دُنیا بَھر کے مقابلے میں پولیو کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت، یونیسیف، روٹری انٹرنیشنل اور بل گیٹس فائونڈیشن کی جانب سے فنڈز جاری کرنے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں پاکستان کے طول و عرض میں گھر گھر جاکر بچوں کو قطرے پلائیں گی۔

سال 2014میں بڑے پیمانے پر انسداد پولیو مہم شروع ہونے کے نتیجے میں اگلے سال ہی پولیو کے کیسز میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوگئی مگر پولیو ویکسین کے حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے والے عناصر نے اس مہم کو شدید نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے ہمیں اس موذی اور مہلک وائرس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مکمل کامیابی نہیں ملی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پولیو سے پاک ہونے والا اگلا ملک بن سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت

رواں سال پولیو کیسز کی شرح میں نہایت کمی دیکھنے میں آئی ہے اور دو ماہ قبل پاکستان کے دورے کے موقع پر ڈان سے بات کرتے ہوئے یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمر عابدی نے کہا کہ ‘ہم گزشتہ 20 سال سے اس حوالے سے سامنے آنے والے رجحانات کی نگرانی کر رہے ہیں، اس سے قبل ہم متعدد مرتبہ اس کے قریب آئے لیکن اب ہم خاتمے کے قریب ہیں’۔

عمر عابدی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پولیو کے خاتمے کا عزم موجود ہے اور ویکسین مستقل پاکستان پہنچتی رہی ہے جس کے نتیجے میں پولیو کے کیسز کم ہوئے ہیں، سیوریج سے حاصل کیے جانے والے نمونے انتہائی کم مثبت شرح دکھا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت بھی گزشتہ سال اس بات کا اظہار کرچکا ہے کہ پاکستان پولیو سے پاک اگلا ملک بن سکتا ہے۔

یہ انتہائی حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے کہ رواں سال پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے،انسداد پولیو سے متعلق سرکاری ویب سائٹ کے مطابق سال 2020ء کے اختتام تک 38 اضلاع سے84 کیسز رپورٹ ہوئے۔ کورونا وبا کے باوجود 2019 میں 147 کیسز کے مقابلے میں سال 2020 میں 43 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی.

حکومت کو انسداد پولیو مہم کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل پر بھی توجہ دینا ہوگی،کُھلے مقامات کو بطور بیت الخلا استعمال نہ کرنے، صاف پانی کی فراہمی اور صحت کے بجٹ میں اضافے جیسے اقدامات بھی ملک کو پولیو سے پاک بنانے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔