انٹرمٹنٹ فاسٹنگ پر امریکا کی جانز ہوپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے سائنسدانوں نے 25 سال تک تحقیق کی بلکہ تحقیقی ٹیم کے قائد مارک میٹیسن نے 20 سال قبل اسے خود بھی اپنالیا۔
انہوں نے کہا یہ اسے صحت مند طرز زندگی کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔
تحقیق کے مطابق انٹرمٹنٹ فاسٹنگ غذائیں 2 کیٹیگریز میں آتی ہیں، ایک تو وہ ہے جس میں روز غذاﺅں کے استعمال کا وقت 6 سے 8 گھنٹے تک محدود کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے میں ہفتے میں 2 دن خود کو ایک معتدل سائز کی غذا تک محدود کرتے ہیں۔
اس حوالے سے جانوروں اور انسانوں پر ہونے والی مختلف تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فاقے اور کھانے کا وقت خلیاتی صحت کو سپورٹ کرتا ہے کیونہ اس سے ممکنہ طور پر میٹابولک سوئچنگ کا عمل حرکت میں آتا ہے۔
یہ عمل اس وقت حرکت میں آتا ہے جب سست رفتار میٹابولک پراسیس کے دوران خلیات اپنے محفوظ ذخائر تک تیزی سے رسائی، شکر پر مبنی ایندھن اور چربی کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل بلڈ شوگر ریگولیشن کو بہتر کرتا ہے، تناﺅ کے خلاف مزاحمت بڑھاتا ہے اور ورم کو دباتا ہے اور چونکہ امریکا میں بیشتر افراد دن میں 3 وقت کی غذا کے ساتھ اضافی اشیا بھی کھاتے ہیں، تو انہیں اس عمل کا سامنا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ 4 تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے بلڈ پریشر، خون میں شحم چربی کی سطح اور دل کی دھڑکن کی رفتار میں کمی آتی ہے۔
ایسے شواہد بھی مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ روزانہ کھانے کا وقت مھدود کرنا موٹاپے اور ذیابیطس کا باعث بننے والے اہم عناصر کا خطرہ بھی کرتے ہیں۔
سو زیادہ جسمانی وزن والی خواتین پر ہونے والی 2 تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ہفتے میں 2 دن صرف ایک وقت غذا استعمال کرنے والی خواتین نے بھی اتنا ہی وزن کم کیا جتنا دن بھر میں کیلوریز کی مقدار محدود کرنے والی خواتین نے، مگر پہلے گروپ میں انسولین کی حساسیت بہتر ہوئی جبکہ توند کی چربی میں زیادہ کمی آئی۔
محققین کے مطابق حال ہی میں ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
رواں سال اپریل میں ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد نے 2 سال تک اپنی غذائی کیلوریز تک محدود کیا، ان میں دماغی ٹیسٹوں میں بہتر یاداشت کی علامات کا اظہار کیا۔اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر جانز ہوپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ثبوت مل چکا ہے کہ یہ طریقہ کار دماغی تنزلی اور ٰڈیمنشیا سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ کہ محققین میٹابولک سوئچنگ کے مخصوص عمل کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے اور کچھ افراد اس پر عمل کرنے میں ناکام بھی رہے، مگر انہوں نے زور دیا کہ رہنمائی اور کچھ تحمل کے ساتھ بیشتر افراد اس غذائی عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بناسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جسم کو اس سے مطابقت کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا مگر ابتد امیں بھوک اور چڑچڑے پن کا سامنا ہوسکتا ہے جو 2 ہفتے سے ایک مہینے تک ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جسم اور دماغ نئی عادت کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے افراد بتدریج کھانے سے دوری کا دورانیہ چند ماہ کے دوران بڑھائیں اور فوراً اسے اپنانے سے گریز کریں۔