وزیرِِاعظم عمران خان نے دورہ امریکا سے کیا کچھ حاصل کیا؟
وزیرِاعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات پر بھارت کی نظریں ضرور تھیں لیکن جو کچھ صدر ٹرمپ نے کہا بھارتیوں کو اس کی توقع ہرگز نہیں تھی۔
صدر ٹرمپ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ بھارتی وزیرِاعظم نے جاپان میں 2 ہفتے پہلے ہونے والی ملاقات میں ان سے کشمیر کے تنازع پر ثالثی کی درخواست کی۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش دسمبر 2016ء میں بھی کی گئی تھی لیکن اس وقت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بھارتی حکومت ثالثی کی متمنی ہے۔
امریکی نائب صدر مائیک پینس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی ڈیل میکنگ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ حل کروا سکتے ہیں۔ اس بار صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی بات کرنا اور اس کے لیے بھارتی وزیرِاعظم کی خواہش کا انکشاف بھارتی میڈیا اور پارلیمان میں ایک زبردست دھماکے کا سبب بن گیا۔
مزید پڑھیے: عمران خان کا دورہ امریکا
یہ ایک بیان وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ کا حاصل اور ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ بھارت طویل سفارتی کوششوں اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے پاک-بھارت تنازعات کو کسی اور فریم میں فٹ کرچکا تھا۔
بھارت نے مسئلہ کشمیر کو بھی دہشتگردی سے جوڑ کر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے بے انتہا سفارتی اور سیاسی سرمایہ کاری کی تھی، لیکن اب صدر ٹرمپ نے نہ صرف کشمیر کو پاک بھارت تعلقات میں بنیادی مسئلے کے طور پر تسلیم کیا بلکہ بھارتی وزیرِاعظم کو بھی بیک فٹ پر لے گئے۔
بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوان ان سیشن ہیں اور بھارت کے وزیرِ خارجہ اپوزیشن جماعتوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ وزیرِاعظم نریندر مودی خود ایوان میں آکر وضاحت دیں۔ اب مودی کے لیے امریکی صدر کو سیدھا سیدھا جھوٹا قرار دینا بہت بڑی سفارتی آزمائش ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت اور امریکا کے تعلقات انتہائی گرم جوشی کے بعد تجارتی تنازع کا شکار ہیں اور مودی کو ستمبر میں واشنگٹن بھی جانا ہے۔
قوم پرستی کی لہر کا شکار بھارتی میڈیا تو جیسے یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ مودی نے صدر ٹرمپ سے ایسی کوئی درخواست کی ہوگی۔ لیکن بھارتی میڈیا یہ بھول رہا ہے کہ اس سال فروری میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی فضائی جھڑپوں کے بعد انتہائی کشیدہ صورت حال میں بہتری صدر ٹرمپ کے ایک بیان کے بعد ہی آئی تھی جو انہوں نے کم جونگ ان سے انتہائی اہم ملاقات کی مصروفیت سے وقت نکال کر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے ویتنام کے دارالحکومت میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ چند گھنٹوں بعد پاک-بھارت تعلقات کےحوالے سے اچھی خبر آنے والی ہے۔ صدر ٹرمپ سے کس نے درخواست کی یہ الگ موضوع ہے لیکن اس موقع پر ٹرمپ نے ڈیل میکنگ کی مہارت دکھا دی تھی۔ اسی ڈیل میکنگ کی مہارت کی بنیاد پر شاید مودی نے ٹرمپ سے کوئی درخواست کی ہو اور ڈیل میکنگ کے ماہر صدر نے شاید اس درخواست کو نئے مفہوم پہنا کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرلیا ہو، غرض یہاں کسی سے کچھ بھی بعید نہیں۔
وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن کا دوسرا حاصل امریکی کمپنیوں کا پاکستان کی جانب رخ کرنا ہے۔ امریکی صدر نے ملاقات میں دوطرفہ تجارت کی بات کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ زراعت اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ زراعت کو سرِفہرست لانے کا مقصد چین جیسی بڑی منڈی سے ہاتھ دھونے والے امریکی کسانوں کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی تنازع میں امریکا کی سویا بین کی برآمدات شدید متاثر ہوئی ہیں۔
توانائی کے شعبے میں جنرل الیکٹرک پہلے ہی پاکستان میں بڑے توانائی منصوبوں کے لیے ٹربائنز فراہم کرچکی ہے اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے نئے منصوبوں میں بھی امریکی کمپنی کو مزید حصہ ملے گا۔
مزید پڑھیے: ’عمران خان کے دورہ امریکا سے متعلق قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے‘
اس کے ساتھ ساتھ امریکا ایل این جی اور قدرتی گیس کے شعبوں میں بھی دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکی کمپنیوں کے آنے سے تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ تجارت تجارتی خسارے کو بڑھانے کا سبب نہ بن جائے۔ پاکستان کو برآمدات کے لیے امریکا سے تجارتی رعایتیں درکار ہوں گی جن کا اعلان نہیں ہوا۔
جہاں تک بات ہے امریکی مالی امداد کی جو جنوری 2018ء میں ایک ٹوئیٹر پیغام کے بعد امریکی صدر نے بند کردی تھی، اس کے فوری بحال ہونے کے کوئی آثار نہیں۔
عمران خان کی وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے اور بعد میں امریکی حکام نے فون پر میڈیا کو بریفنگ دی جس میں عہدیداروں کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن امریکا کے ارادوں اور تحفظات سے میڈیا کو بروقت آگاہ کردیا گیا۔ ان بریفنگز کی روشنی میں اخذ کیے گئے نتائج کے مطابق امریکا کی طرف سے افغان امن عمل میں تعاون اور پاکستان کے اندر عسکری تنظیموں کے خلاف حالیہ کارروائیوں کو سراہا گیا لیکن ساتھ ہی ڈومور کی فہرست بھی تھمائی گئی ہے۔
وزیرِاعظم کے دورہ امریکا سے پہلے کئی حوالوں سے اہم پیشرفت ہوئی۔ 7 اور 8 جولائی کو دوحہ میں انٹرا افغان ڈائیلاگ ہوا۔ افغان حکومت کے عہدیدار اور افغان طالبان ایک میز پر اکٹھے ہوئے۔ پاکستان نے اندرونِ ملک چند عسکری تنظیموں پر کریک ڈاؤن کیا، کچھ گرفتاریاں ہوئیں، اثاثے ضبط کیے گئے، چند مدارس سرکاری تحویل میں لیے گئے اور مدارس کے نظام میں اصلاحات کا ایک اور ڈول ڈالا گیا۔ امریکی حکام نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ اگر پاکستان دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے حوالے سے اپنی حالیہ سمت برقرار رکھتا ہے تو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور پائیدار شراکت داری کا راستہ کھلا ہے۔
امریکی صدر کے ساتھ پریس بریفنگ میں وزیرِاعظم عمران خان نے خوشخبری دی کہ یرغمالیوں کے حوالے سے جلد اچھی خبر ملے گی۔ یہ یرغمالی کابل میں امریکی یونیورسٹی کے 2 پروفیسر ہیں جو 2016ء میں اغوا ہوئے تھے۔ ان میں ایک امریکی پروفیسر کیون کنگ ہے، جس کو گردوں اور دل کے عوارض لاحق ہیں۔ ان 2 یرغمالیوں کے بدلے طالبان انس حقانی کی رہائی چاہتے تھے۔ طالبان نے انس حقانی کی رہائی کے لیے مذاکرات کے آغاز پر ان کا نام مذاکراتی ٹیم میں بھی شامل کیا تھا۔ جنوری میں دوحہ مذاکرات کا پہلا دور پروفیسروں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے پر ہی تعطل کا شکار ہوا تھا۔
یرغمالیوں کی رہائی امریکی صدر کے لیے یقیناً اچھی خبر تھی لیکن امریکیوں کا اصرار ہے کہ افغان امن عمل نازک موڑ پر ہے، پاکستان افغان طالبان پر مستقل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالے اور مذاکرات کی مخالفت کرنے والے دھڑوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے۔
امریکا فوجی انخلا پر رضامندی کے باوجود افغانستان میں اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس پر بھی طالبان کو رضامند کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ امریکی اڈوں کی موجودگی نہ صرف اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل ہوگی بلکہ افغان سرزمین مستقبل میں دوسرے ملکوں پر حملہ نہ کرنے کی ضمانت کا ذریعہ بھی تصور کی جا رہی ہے۔
ڈومور کی بات صرف افغان امن عمل تک محدود نہیں بلکہ امریکا افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے لیے راہداری بھی کھلوانا چاہتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تجارتی راہداری کھلنے سے ہی پاکستان کی خطے میں امن کے لیے سنجیدگی ظاہر ہوگی۔ اس کے ساتھ عسکری تنظیموں کی گرفتار قیادت کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ امریکی حکام نجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ گرفتاریاں پہلے بھی ہوتی رہیں، حافظ سعید کی گرفتاری ساتویں بار ہوئی، مگر اب اس میں سنجیدگی نظر آنی چاہیے۔
امریکی حکام نے سی پیک پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور سی پیک منصوبوں پر سرمایہ کاری اور قرضوں کو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے ہلکی سی تنبیہ بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ سب سے بڑا اور فوری ایشو فائیو جی (5G) ٹیکنالوجی کا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ہواوے سے فائیو جی ٹیکنالوجی لینے والے اس کے مضمرات سے ضرور آگاہ رہیں۔ ہواوے کے ساتھ کاروبار کرنے والے ملکوں اور کمپنیوں کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی حکام نے اسامہ بن لادن کی نشاندہی کرنے والے شکیل آفریدی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ وزیرِاعظم نے فوکس نیوز سے انٹرویو میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے رہائی پر غور کا بیان دیا لیکن اسامہ کی تلاش میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے کردار کا ذکر کرکے وزیرِاعظم نے شکیل آفریدی کے خلاف پچھلے ریاستی موقف کو بھی کمزور کردیا۔
مزید پڑھیے: ’وزیراعظم کا دورہ امریکا، تعلقات کو نئی جہت بخشے گا‘
مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اس دورے سے فوری کمک دستیاب نہیں ہوسکی۔ امریکا کے کاروباری صدر نے فوری دستیاب پیشکش اور تعاون کا جواب خوش دلی سے استقبال کرکے دیا۔ 1.3 ارب ڈالر سالانہ سیکیورٹی امداد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان مزید پیشرفت دکھائے تو ممکن ہے امداد بحال کردی جائے۔ فوری فائدہ اگر ممکن ہوا تو ستمبر میں ایف اے ٹی ایف کا جائزہ اجلاس پاکستان کے اقدامات پر مثبت رپورٹ دے گا، لیکن اس کا بھی کہیں وعدہ یا بیان دیکھنے کو نہیں ملا۔
افغان امن عمل میں اشرف غنی حکومت کی حیثیت بھی اس دورے میں واضح ہوگئی۔ امریکی صدر نے جنگ کے خاتمے کے لیے بے صبری کا کئی بار اظہار کیا اور کہا کہ اگر جنگ جیتنا مقصود ہو تو 10 دن لگتے ہیں لیکن وہ ایک کروڑ انسانوں کا قتل نہیں چاہتے۔ ساتھ ہی کہا کہ افغان اب عمارتیں بنا رہے ہیں، کاروبار کر رہے ہیں، اس مقصد کے لیے ہم وہاں کیوں رُکیں۔
لیکن افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے بیان پر کابل حکومت شدید غصے میں ہے مگر کیا کیا جائے کہ کام تو اسی تنخواہ پر کرنا ہے اور وہ بھی جب تک ملازمت چلتی ہے۔
افغان امن عمل میں سب سے بڑا مسئلہ شراکتِ اقتدار کا ہے۔ افغان حکومت میں کئی لسانی گروپ اور وار لارڈز حصہ بقدر جثہ لیے بیٹھے تھے لیکن اب اگر طالبان کی واپسی ہوتی ہے تو وہ کم از کم 70 فیصد کی توقع رکھتے ہیں۔ ان حالات میں کئی پرانے تنخواہ داروں کی چھٹی ہوجائے گی، یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کو ان کی ناراضگی کی پرواہ نہیں۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔