جہاں کانگریس بھلے ہی گائے کے پیشاب پر سیاست کر رہی ہو اور اپنی پیشانی پر سندور لگا رہی ہو مگر وہیں راہول ایک نیک نیت شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ کسی برادری پر لعن طعن نہیں کرتے، جو ہمارے اس موجودہ پستی والے دور میں ایک زبردست اثاثے سے کم نہیں ہے۔ لوگ ان کی یونیورسٹی ڈگری پر بھی ایک نگاہ ڈال سکتے ہیں۔ وہ موت کی سزا کے خلاف ہیں جس کا اندازہ اپنے والد کے قاتلوں کو پھانسی پر چڑھانے کے خلاف مہم سے لگایا جاسکتا ہے۔
اقتصادی اعتبار سے من موہن سنگھ کی تجویز ان کی دسترس میں ہے۔ لیکن ایک مشکل بھی حائل ہے جسے بے محل خواہش کہتے ہیں۔ کچھ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ راہول کے ارد گرد بیٹھے مشیر جن کے ان بڑی اور طاقتور شخصیات سے براہِ راست روابط ہیں جنہوں نے مودی کو اقتدار میں لانے کے لیے مدد فراہم کی تھی، وہ انہیں ایک قدم اور جانے کے لیے اکسا رہے ہیں۔
رافیل کرپشن ویسے تو بہت بڑا معاملہ ہے لیکن اس موقعے پر یہ اصل مقصد سے توجہ ہٹانے کا کام کرسکتا ہے۔ دی ہندو اور دیگر کی جانب سے کیے جانے والے انکشافات بہت ہی قابلِ تعریف ہیں مگر رافیل کرپشن معاملہ حزب اختلاف کو 2 اضافی ووٹ نہیں دلوائے گا کیونکہ شہری ووٹ مکمل طور پر فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کا شکار ہے۔
راجیو گاندھی کی شکست بوفورز کرپشن کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی کہ جس میں ان کے ارد گرد بیٹھے لوگوں کا ہاتھ تھا۔ ان کی ناکامی کی وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں سے بُرے برتاؤ کے باعث ہندوستانیوں کے سماجی توازن سے کی جانے والی چھیڑ چھاڑ تھی، وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی حمایت کھو چکے تھے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ راجیو تب بھی سادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئے اور انہیں حکومت تشکیل دینے کی دعوت بھی دی گئی، جسے قبل کرنے سے انہوں نے انکار کردیا تھا۔ کیا کوئی یہ مانتا ہے کہ مودی اکثریت کے بغیر بطور سادہ اکثریت والی پارٹی کے سربراہ سخت جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا چاہیں گے؟
لہٰذا رافیل کو بھول جائیے اور ابھی خصوصی طور پر جمہوریت کو بچانے کے لیے اتحاد بنانے پر دھیان دیجیے۔ اگر اس کے لیے مایاوتی، ممتا بینرجی یا پھر چندبابو نائڈو کے راستے سے ہٹ جانا پڑے جو ہٹ جائیے۔ صرف ایک مضبوط حزبِ اختلاف کی جیت ہی دیگر جرائم کے ساتھ رافیل کرپشن کرنے والوں کو سزا دے سکتی ہے۔
یہ مضمون 12 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔