جہاں برآمدکاروں نے بلاشبہ ڈالر کی اضافی شرح سے فائدہ حاصل کیا ہے وہیں سیٹھی جیسے برآمدکاروں کو ان کی مصنوعات میں استعمال ہونے والی درآمد شدہ سامان پر انحصار کی وجہ سے ملے جلے نتائج کا سامنا ہے۔ پاکستان میں کئی دیگر مقامی سطح کے کاروبار باہر سے لائے جانے والے خام مال یا تیار شدہ مٹیریل سے جڑے ہیں۔
بزنس مین سلمان کہتے ہیں کہ ’ڈالر کی قیمت میں عدم استحکام سے خاص طور پر درآمدکار متاثر ہوئے ہیں کیونکہ درآمدات کے آرڈرز مہینوں پہلے ہی دے دیے جاتے ہیں۔‘
علاوہ ازیں، کرنسی چاہے کتنی ہی اوپر نیچے ہو یا روپے کی قدر میں کتنی ہی کمی آئے اگلے سال سے حکومتی ٹینڈرز میں ایک مستقل قیمتِ فروخت کی شرط شامل ہوگی۔
سلمان کہتے ہیں کہ ’کُل باتوں کی ایک بات، پاکستان درآمدات پر مںحصر ملک ہے۔ ہمارے پاس برآمدات سے زیادہ درآمدات ہوتی ہے۔ لہٰذا جب بھی روپے کی قدر تبدیل ہو، مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس سے پہلا شخص جو متاثر ہوتا ہے وہ ہے صارف، کیونکہ اسے جن چیزوں کی خریداری کرنی ہے وہ بہت زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں اور یوں مہنگے داموں خریداری کے سبب اس کا ماہانہ بجٹ بھی بڑھ جاتا ہے۔‘
روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے صرف مقامی کاروبار ہی متاثر نہیں ہوا۔ مقامی پرواز کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، اور بیرونِ ملک سفر کرنے والوں کو ایکسچینج ریٹ میں آنے والے زبردست فرق کی وجہ سے ہوٹل اور دیگر اخراجات بھی بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ ۔
31 سالہ احمد جاوید حال ہی میں ترکی کا سفر کرکے لوٹے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) سے بطور پائیلٹ وابستہ احمد جاوید نہ صرف کام کے سلسلے میں بلکہ سیاحت کے غرض سے بھی سفر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے انہیں اپنے سفری بجٹ میں کٹوتی کرنی پڑگئی۔‘
جاوید کہتے ہیں کہ ’میں نے (ترکی میں) سستے ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ اگر ایکسچینج ریٹ پہلے جیسا ہوتا تو میں شاید کسی بہتر ہوٹل میں ٹھہرتا۔‘
جاوید کے مطابق ’وہ جن غیر ملکی سفروں کی پلاننگ مہینوں پہلے سے کر رہے تھے وہ بھی مہنگائی کی وجہ سے متاثر ہوگئے ہیں۔‘
جاوید نے بتایا کہ ’اگر میرا ویزا لگ جاتا ہے تو میں اگلے ماہ فرانس جاؤں گا، جہاں میں لیون نامی شہر میں منعقدہ ٹومورو لینڈ میوزک فیسٹیول میں شرکت کروں گا۔ میں نے کئی ماہ قبل اس وقت ٹکٹ بک کروائی تھی جب ڈالر کی قیمت تقریباً 115 روپے تھی۔ میں نے اپنے دوست کو ٹکٹ لانے کو کہا۔ حال ہی میں جب وہ پاکستان آیا اور جب پیسے ادا کرنے کا وقت آیا تو مجھے ڈالر کی قیمت میں آنے والا فرق بھی ادا کرنا پڑا۔‘
اس کے علاوہ ایک دوسرا طبقہ جو روپے کی قدر میں کمی سے متاثر ہوا ہے وہ ہے بیرون ملک زیرِ تعلیم طلبا اور ان کے ساتھ ان کے گھر والے جو انہیں پاکستان سے ٹیوشن اور دیگر اخراجات کے لیے پیسے بھیجتے ہیں۔
18 سالہ ایمان جعفری کو جون میں کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا تاہم ایمان کو جب معلوم ہوا کہ ان کے گھر والے ان کے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھا سکتے تو انہوں نے کینیڈا نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ ایمان کہتی ہیں کہ ’اگر میں کینیڈا گئی تو میری والدہ کو تعلیمی و دیگر اخراجات ڈالرز میں ادا کرنے ہوں گے جبکہ وہ روپے میں کماتی ہیں اور چونکہ بطور ایک اسکرین رائٹر ان کے پاس ایک مستقل آمدن نہیں اس لیے وہ میرے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھاسکتیں۔‘
ایمان اب کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ انہیں کسی قسم کا پچھتاوا تو نہیں ہے البتہ ان کی اپنی بہن سے ملنے کی خواہش ادھوری رہ گئی جو گزشتہ 3 برس سے کینیڈا میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ایمان ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں اپنی بہن کے ساتھ رہنے اور پڑھنے جاؤں گی، جو میری ہمیشہ سے خواہش تھی۔‘
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ایمان کی بہن جو کینیڈا اور ان کے بھائی جو پراگ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان دونوں کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اہل خانہ کو ان دونوں کے درمیان پیسوں کی تقسیم میں جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔
ایمان کہتی ہیں کہ ’ہماری نظر مسلسل ڈالر پر رہتی ہے، کیا قیمت میں کمی ہوئی، کیا قیمت میں اضافہ ہوا؟ اور مستقل آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ویسے ہی بہت زیادہ مالی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ آیا اگلے لمحے ہمارے پاس کھانے یا اپنے خرچے کے لیے مناسب پیسے ہوں گے بھی یا نہیں۔ ہمیں خرچوں میں مزید کتنی کٹوتی کرنی ہے؟ ہم جو بھی کریں گے اس کا اثر میرے بھائی کو ملنے والے پیسوں پر پڑے گا جبکہ میرے بھائی کے خرچے کا اثر ہمیں پڑے گا۔ یہ بالکل ایک سائیکل کی طرح ہے۔‘
ایمان مزید کہتی ہیں کہ ’اس بار ہمیں اپنے رشتہ داروں کو بھی ان اخراجات میں حصہ ڈالنے کے لیے کہنا پڑا اور اس کے بعد ہمیں ایک بار پھر پیسے جمع کرنے ہوں گے۔ ہر کچھ ماہ بعد ٹیوشن فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ ہمیں (میری والدہ کو) ٹیوشن کے لیے 3 لاکھ روپے ادا کرنے ہوتے تھے لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد اب 4 لاکھ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔‘
ایمان سلطان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔