پاکستان

فاٹا ٹربیونل کے غیر فعال ہونے سے ڈاکٹر شکیل کی درخواست سماعت سے محروم

فاٹا کے انضمام کے بعد ٹربیونل بحال ہونے کی امید نظر نہیں آرہی، درخواست پشاور ہائیکورٹ میں دائر کریں گے، وکیل ڈاکٹر شکیل

پشاور: ڈاکٹر شکیل آفریدی کی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے پر ملنے والی سزا کے خلاف درخواست وفاق کے زیر انتطام قبائلی علاقہ (فاٹا) کے ٹربیونل کے 8 ماہ سے غیر فعال ہونے کی وجہ سے سماعت نہیں ہوسکی۔

فاٹا انٹرم گورننس ریگولیشن (ایف آئی جی آر) 2018 کے اعلان کے بعد غیر فعال ہونے والے ٹربیونل کے حکام کا کہنا تھا کہ اگلی سماعت 4 اپریل کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔

ڈاکٹر شکیل کے وکیل قمر ندیم آفریدی نے ڈان کو بتایا کہ 3 رکنی ٹربیونل جو فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کی تیسری اور آخری عدالت تھی، کو غیر فعال کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے کارروائی نہیں ہورہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل کے مرکزی وکیل عبداللطیف آفریدی سے مشاورت کے بعد درخواست کو پشاور ہائی کورٹ میں دائر کیا جائے گا کیونکہ 25 ویں آئینی ترمیم جس میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا تھا، کے بعد فاٹا ٹربیونل کے دوبارہ بحال ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔

مزید پڑھیں: ’امریکا کی جانب سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی حوالگی کیلئے دباؤ نہیں‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 2 ماہ سے حکومت نے ڈاکٹر شکیل کے اہلخانہ کو بھی ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

خیال رہے کہ فاٹا ٹربیونل سانج مرجان خان کی قیادت میں رکن حسین زادہ خان اور عاطف نظیر پر مشتمل ہے۔

28 مئی 2018 کو صدر مملکت نے ایف سی آر کے خاتمہ کرتے ہوئے ایف آئی جی آر کا اعلان کیا تھا۔

تاہم نئے قانون میں ٹربیونل کا کوئی ذکر نہیں تھا اور نہ ہی غیر فعال ٹربیونل میں زیر سماعت کیسز کے مستقبل کا کوئی ذکر تھا۔

اُس وقت سے اب تک ٹربیونل غیر فعال ہے اور اپنی قسمت کے فیصلے کے لیے حکومتی نوٹیفکیشن کے انتظار میں ہے۔

ایف سی آر کمشنر، جو ایف سی آر کے تحت اپیل فورم بھی ہے، نے 15 مارچ 2014 کو ڈاکٹر شکیل کو خیبر ایجنسی کے باڑہ تحصیل میں کالعدم دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہونے پر ان کی 33 سال کی سزا کو کم کرکے 23 سال کردیا تھا جبکہ 3 لاکھ 20 ہزار کے جرمانے کو بھی کم کرکے 2 لاکھ 20 ہزار کردیا تھا۔

اپنی نظر ثانی درخواست میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے کمشنر کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر شکیل آفریدی اڈیالہ سے ساہیوال جیل منتقل

ان کی درخواست تقریباً 4 سال سے سماعت کی منتظر ہے۔

خیبر ایجنسی جو اب ضلع خیبر بن چکا ہے، کی انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹر شکیل کی سزا کم کرنے کی درخواست کی بھی سماعت نہیں ہوسکی ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر شکیل کو مئی 2011 میں خفیہ اداروں کی جانب سے القاعدہ کے امیر اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں امریکی سی آئی اے کے احکامات پر جعلی ویکسینیشن مہم چلاتے ہوئے پتہ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

تاہم ٹرائل کورٹ نے انہیں اِن الزامات میں بری کردیا تھا۔

اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ، جو خیبر ایجنسی کی باڑہ تحصیل کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ بھی ہیں نے انہیں 23 مئی کو لشکر اسلام کی حمایت کرنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے و دیگر پر سزا سنائی تھی۔

ڈاکٹر شکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا اور انہیں ’کھوکھلی بنیاد‘ پر اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے سزا سنائی گئی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں یکم فروری 2019 کو شائع ہوئی