پاکستان

’امریکا کی جانب سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی حوالگی کیلئے دباؤ نہیں‘

واشنگٹن کی طرف سے کوئی درخواست کی گئی تواسے پارلیمنٹ میں پیش کریں گے،قومی سلامتی پرکوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، شہریار آفریدی
|

ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی اُسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے امریکی آپریشن کے مرکزی کردار ڈاکٹر شکیل آفریدی سے متعلق وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے شکیل آفریدی کی حوالگی سے متعلق کوئی دباؤ نہیں ہے۔

آج 19 دسمبر کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں سینیٹر مظفر شاہ حسین نے شہریار آفریدی سے سوال کیا کہ امریکا کی طرف سے شکیل آفریدی کی حوالگی کی درخواست کی خبریں آرہی ہیں۔

سینیٹر مظفر حسین شاہ نے پوچھا کہ کیا حکومت کو شکیل آفریدی کے معاملے پر امریکا کی جانب سے کسی دباؤ کا سامنا ہے؟

مزید پڑھیں : ’شکیل آفریدی کیس میں امریکا کو ہمارے قانون کا احترام کرنا چاہیے‘

جس پر شہریار آفریدی نے کہا کہ ’اس چیز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم پر نہ تو کوئی دباؤ ہے نہ ہی ہم کسی دباؤ میں آئیں گے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ شکیل آفریدی کی حوالگی سے متعلق واشنگٹن کی جانب سے کی گئی کسی بھی درخواست اس وقت میرے علم میں نہیں‘۔

شہریار آفریدی نے کہا کہ ’ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے‘۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اگر امریکا کی جانب سے ایسی کوئی درخواست موصول ہوئی تو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد مذکورہ معاملہ صوبوں کا ہے۔

جس پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اظہار خیال کہ شکیل آفریدی کا معاملہ ’ صوبائی مسئلہ ‘ کہنا درست نہیں۔

انہوں نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ کل کلبھوشن یادو سے متعلق بھی ایسا کہا جائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر شکیل آفریدی اڈیالہ سے ساہیوال جیل منتقل

جس کے جواب میں شہر یار آفریدی نے کہا کہ ’شکیل آفریدی اور کلبھوشن یادو میں فرق ہے‘۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر ایبٹ آباد آپریشن کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی معاونت اور القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی مخبری کا الزام ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دہشت گردوں سے تعلقات کا جرم ثابت ہونے پر مئی 2012 میں 33 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ شکیل آفریدی نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

اپریل 2018 میں اڈیالہ جیل منتقل کیے جانے سے قبل وہ پشاور کی جیل میں تھے جس کے بعد اگست میں سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انہیں اڈیالہ سے ساہیوال جیل منتقل کیا گیا تھا۔

اہم چیزیں ہو رہی ہیں اور پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا جا رہا، رضا ربانی

دوران اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ غیر فعال ہو گئی ہے، وزیر خارجہ کے تمام بیان پریس کانفرنس کے ذریعے یا اخبار میں آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے تھا کہ اس وقت اہم چیزیں ہو رہی ہیں اور پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا جا رہا۔

رضاربانی نے کہا کہ پاکستان کی مدد سے امریکا طالبان مذاکرات کا آغاز ہوا جس کی اطلاع ہمیں وزیر اعظم کی پارلیمنٹ سے باہر بیان سے ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک بھی پالیسی بیان پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ نے نہیں دیا۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے دو دورے اور معاہدے کیے لیکن معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں نہیں دی گئیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی دفاعی معاہدہ ہوا ہے؟کن ٹرمز پر سعودی عرب سے معاشی پیکج طے ہوا ہے؟ کچھ بتایا نہیں گیا۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزیر اعظم متحدہ عرب امارات گئے لیکن اس حوالے سے پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے دورے کے بعد میڈیا میں کہا گیا کہ ہم اکنامک ٹیم وہاں چھوڑ کر آئے ہیں،اس حوالے سے آج تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ ایسا کرکے آپ پارلیمنٹ کو کمزور کریں گے،وہ معلومات جو پارلیمنٹ کو ملنی چاہئیں اگر نہیں دیں گے تو ایوان غیر فعال ہو جائے گا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایوان تیزی سے غیر فعال ہونے کی طرف جا رہا ہے اور یہ حکومت کے مفاد میں نہیں ہو گا، دیگر قوتیں خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھیں گی۔

اپوزیشن کا چیئرمین نیب کو طلب کرنے کا مطالبہ

اجلاس کے دوران نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے اپنے خلاف نیب کی کارروائیوں سے متعلق خبروں پر تحریک استحقاق جمع کروائی۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف الزام لگایا گیا ہے کہ اربوں روپے کی جائیداد خریدی ہے،نیب کی جانب سے میری بیٹی، بیوی، بھانجوں کے نام لکھے گئے ہیں۔

حاصل بزنجو نے کہ میں نیب کو چیلنج کرتا ہوں، میرے خلاف جے آئی ٹی بنائی جائے، اگر جے آئی ٹی پر تسلی نہ ہو تو تحریک انصاف کمیٹی بنائے میں پیش ہونے کو تیار ہوں۔

اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کے خلاف نیب کی کارروائیوں پر اپوزیشن نے چیئرمین نیب کو طلب کرنے اور اس حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میں نے چیئرمین نیب کو خط لکھ دیا ہے، تمام ارکان سینیٹ کو بھی خطوط بھیج دیئے ہیں، کوئی بھی رکن چیئرمین آفس کی اجازت کے بغیر نیب کے روبرو پیش نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے کوئی بھی نوٹس موصول ہو تو چیئرمین کی اجازت کے بغیر نہ جائیں اور اگر نیب زبردستی بلائے تو واضح کردیں کے چیئرمین آفس سے بات کریں۔