قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم کے خلاف مزید کیس کھولنے کی درخواست
کراچی: پروسیکیوشن نے انسداد دہشت گردی عدالت سے زیر حراست ملزم سعد عزیز کے خلاف امریکی ماہر تعلیم ڈیبرالوبر پر حملے سمیت دیگر الزامات میں مزید مقدمات کھولنے کی درخواست کردی۔
واضح رہے کہ سعد عزیز پر الزام ہے کہ اس نے اپنے 4 ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپریل 2015 میں کراچی جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل ڈیبرا لوبر پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: القائدہ بر صغیر کا انتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار
پروسیکیوشن کے مطابق ڈیبرالوبر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں اپنی رہائش گاہ کی جانب جارہی تھیں کہ ان پر حملہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیبرا لوبر حملے میں محفوظ رہی تھی تاہم وہ ہاتھ اور چہرے پر 2 گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہوگئیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے 27 جون 2015 کو شناختی پریڈ میں عینی شاہد نے مرکزی ملزم سعد عزیز کو پہنچان لیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کے جج نے دونوں جانب سے دلائل سننے اور شواہد ریکارڈنگ کرنے کے بعد کیس سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
واضح رہے کہ مقدمہ سینٹرل جیل میں زیر سماعت ہے۔
مزید پڑھیں: سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار
سماعت کے دوران اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل نے بحث کرتے ہوئے درخواست پیش کی کہ اضافی شواہد بھی موجود ہیں جنہیں ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے عدالت سے کیس دوبارہ کھولنے کی استدعا کی، ان کا کہنا تھا کہ مئی میں مرکزی ملزم سعد عزیز نے عدالت میں اپنے بیان میں کسی بھی کالعدم تنظیم کے ساتھ تعلق سے انکار کیا تھا۔
دوسری جانب تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ ملزمان داعش سے متاثر اور القاعدہ سے منسلک تھا۔
ملزم نے بیان دیا تھا کہ واقعہ سے قبل وہ ڈیبرا لوبر کو جانتا بھی نہیں تھا تاہم خفیہ اداروں کے اہلکار سادہ لباس میں 18 مئی 2015 کو ان کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں ساتھ لے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: لشکر جھنگوی کے 6 'دہشت گرد' گرفتار
ملزم نے کہا کہ سیکیورٹی ہلکاروں نے ان کی گرفتاری 20 مئی 2015 کو گلشن معمار میں جعلی پولیس مقابلے کے بعد ظاہر کی۔
ملزم نے مزید کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں جو شناختی پریڈ ہوئی اس میں شناخت کرنے والا جاوید تھا جو انسداد دہشت گردی کے محکمے میں اکثر چکر لگاتا رہتا تھا۔
ملزم نے بتایا کہ اہلکاروں نے جاوید کو میرا چہرہ پہلے ہی دیکھا دیا تھا اور شناختی پریڈ کے لیے آنے والی گاڑی میں جاوید کو میرے ساتھ ہی بٹھایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سعد عزیز انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالبعلم تھا جسے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جنوری 2016 میں فوجی حکام کے حوالے کیا گیا تھا تاکہ ملزمان کے خلاف صفورہ گوٹھ بس حملہ کیس، سبین محمود قتل کیس، پولیس اہلکاروں کے قتل سے متعلق کیس، اقدام قتل اور بارودی مواد اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے سے متعلق 18 مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکیں۔
مزید پڑھیں: 'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'
فوجی عدالتوں نے مئی 2016 میں مذکورہ مقدمات میں سعد عزیز، طاہر مہناج، اسد الرحمٰن، محمد اظہر اور حافظ ناصر احمد کو سزائے موت سنائی تھی۔
بعدازاں مجرموں کو جیل حکام کے حوالے کردیا گیا تاکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت دیگر مقدمات مکمل ہو سکیں۔