آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی: سپریم کورٹ نے عوامی نوٹس جاری کردیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر عوامی نوٹس جاری کردیا جس کے مطابق عدالتی فیصلے سے متاثر شخص عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطاء بندیال، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کے معاملے پر آئینی و قانونی سوالات کا جائزہ لینے سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس آرٹیکل سے متاثر ہیں وہ عدالت سے رجوع کریں۔
مذکورہ اپیل کے درخواست گزار سمیع بلوچ کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت عوامی نوٹس جاری کرے، جبکہ دوسرے آپشن میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔
چیف جسٹس نے سینئر وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون بن سکتے ہیں، کیا آپ ان مقدمات میں ملوث تو نہیں جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
مزید پڑھیں: نا اہلی کیس: جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کردی
بعدِ ازاں عدالت نے منیر اے ملک اور علی ظفر ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کردیا جبکہ آرٹیکل 62 سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ مخالف امیدوار کے کردار کے تعین کا اختیار ابتدائی طور پر ریٹرنگ افسر کو حاصل ہے۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہ آرٹیکل 227 میں اسلامی اقدار، اچھے کردار کا ذکر کیا گیا، آرٹیکل 227 کی خلاف ورزی پر ڈکلیئریشن کی ضرورت نہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ نظریہ پاکستان کا آئین میں دو جگہوں پر ذکر ہے جب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کا مخالف آئین کے تحت نااہل ہوگا۔
بابر اعوان نے کہا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو افغانستان کا حصہ کہنے والا اور اس کی آزادی کی بات کرنے والا بھی نااہل تصور کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: مخدوم علی کا آرٹیکل 62 ون پر عدالت عظمیٰ کے معاون بنے سے انکار
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سے نااہل ہونے والوں کی دو اقسام ہیں؛ ایک وہ جو کسی قانون کے تحت نااہل ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو آئین کے تحت نااہل ہوتے ہیں، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اس کی تیسری قسم بھی ہے جس میں لوگ آئین کے تحت بنے قوانین سے نااہل ہوتے ہیں۔
بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ عدالت کو حدیبیہ فیصلے کا بھی جائزہ لینا ہوگا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ طویل عرصے تک سزا نہ ہونا بری ہونے کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حدیبیہ فیصلہ کچھ کہتا ہے اور قانون کچھ اور کہتا ہے جبکہ برے کردار پر بھی کوئی شخص شخص نااہل ہوسکتا ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ امیدوار کی اہلیت مخالف امیدوار چیلنج کرے گا، ریٹرننگ آفیسر کردار کاتعین کیسے کرے گا کیونکہ اس کے پاس اس بات کے تعین کے لیے عدالتی فیصلہ یامواد ہوناچاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تمام افراد کو دوبارہ نوٹس جاری کیا جائے گا کہ جبکہ ان میں سے جو بھی عدالت میں آیا اسے فریق بنالیا جائے گا، تاہم نواز شریف یا متاثرین میں سے کوئی نہیں آیا تو یکطرفہ فیصلہ دے دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی: نواز شرف اور جہانگیر ترین کو نوٹسز جاری
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یکطرفہ فیصلہ بھی میرٹ کا فیصلہ ہوتا ہے۔
جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا صادق اور امین غیر مسلموں کے لیے بھی شرط ہے جس پر بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ آئینِ پاکستان کا ہر لفظ اپنی اپنی ڈاکٹرائن رکھتا ہے لیکن اقلیتی امیدواروں کا بھی اچھا کردار ہونا ضروری ہے۔
بابر اعوان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 62 میں کبھی تبدیلی نہیں کی جس کا مطلب ہے آرٹیکل 62 پر پارلیمنٹ رضامند ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ واضع طور پر بتایا جائے کہ درخواست گزار کا موقف کیا ہے، کیا نا اہلی ایک مدت کے لیے ہوگی یا تاحیات، کیونکہ اگر نا اہلی تاحیات ہوگی تو سیاسی مستقبل ختم ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال نا اہلی کی مدت کا ہے اور اگر نااہلی تاحیات نہیں ہو تو الیکشن لڑنا نااہل شخص کا حق ہے۔
بعدِ ازاں عدالت نے نواز شریف سمیت آرٹیکل 62 وی ایف سے متاثرہ دیگر افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
سماعت کے دوبارہ آغاز کے بعد چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ بھی تاحیات نااہلی کے مخالف ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ وہ آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت تاحیات نااہلی کی حمایت نہیں کرتے۔
بابر اعوان نے 62 ایف ون کے تحت نااہلی کی مدت کے حوالے سے قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا جس کے بعد چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کوئی ایسا وکیل ہے جو آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت تا حیات نااہلی کی بابر اعوان کی دلیل سے متفق ہے جس پر عدالت میں کوئی بھی وکیل کھڑا نہ ہوا۔
بعدِ ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کردی جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو منگل 30 جنوری کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کے تھے۔