‘اگر شیوا زندہ ہوتے تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے‘
بھارت اپنے ہیروز اور تاریخی شخصیات کی محبت میں شدت سے گرفتار ہے،یہی وجہ ہے کہ ان شخصیات کی یاد میں بڑی بڑی رقوم خرچ کی جاتی ہیں، پھر چاہے وہ رقم ٹیکس ادا کرنے والی بیچاری عوام کی ہی کیوں نہ ہو۔
تازہ مثال حیران کر دینے والی ہے، کیونکہ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 16ویں صدی میں مرہٹہ دور کے مشہور نام چتراپتی شیوا جی کی یاد میں بحیرہ عرب کے وسط میں مجسمہ بنانے کی تیاریوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
192 میٹر اونچا شیو سمارک امریکا میں نصب مجسمہ آزادی سے دوگنا اونچا ہوگا جبکہ اسے ممبئی سے ساڑھے 3 کلو میٹر مسافت کی دوری پر واقع بحیرہ عرب کے 16 ایکڑ رقبے میں تعمیر کیا جائے گا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چتراپتی شیوا جی کی یاد میں بننے والی اس یادگار کے لیے 3 ہزار 6سو کروڑ (36 ارب) روہے مالیت کا بنیادی پتھر نصب کرنے کے لیے ممبئی کا رخ کریں گے۔
اس یادگار کی تفصیلات بتاتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیوندرا فدناوس کا فخریہ انداز میں بتانا تھا کہ ’شیو سمارک‘ نامی یہ مجسمہ نہ صرف بھارت کی بلکہ دنیا بھر میں کسی ملک کی جانب سے بحیرہ عرب میں تعمیر کی جانے والی سب سے اونچی یادگار ہوگی۔
اس ریکارڈ توڑ مجسمے کی تمام تفصیل ایک طرف لیکن اس کی تیاری میں خرچ کی جانے والی بھاری رقم کے لیے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
واضح رہے مہاراشٹر حکومت اس منصوبے کی لیے فنڈنگ کا اعلان جاری کرچکی ہے جبکہ پہلے مرحلے کے لیے 2 ہزار 300 کروڑ یعنی 23 ارب) روپے بھی ادا کیے جاچکے ہیں۔
مہاراشٹر اور بھارتی حکومت کی اندھی عقیدت ایک طرف لیکن اس مجسمے کی تعمیر پر پانی کی طرح پیسے بہانے کی مخالفت سامنے آگئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق تبدیلی کے لیے کام کرنے والے ادارے Change.org کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں ساڑھے 18 ہزار افراد شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے والی عوام کی اس رقم کو کسی اچھی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت میں حفظانِ صحت سے لے کرتعلیم کی کمی اور غربت جیسے مسائل عام ہیں۔
چینج نامی تنظیم اور ہزاروں افراد کی جانب سے دائر درخواست میں بھی مجسمے کی تعمیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ مجسمہ تو کسی کے کام نہیں آنے والا،اس پر خرچ کے بجائے ٹیکس کی رقم کو تعلیم، انفرا سٹرکچر اور غریبوں کو خوارک کی فراہمی پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر شیوا جی زندہ ہوتے تو وہ بھی کبھی ایسا نہ چاہتے جبکہ ان سے اظہار عقیدت کے لیے اور بہت سے طریقے موجود ہیں۔
اس عظیم الشان منصوبے پر مچھیروں اور سمندر کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ماہرین کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آچکا ہے، جو اس کے خلاف عدالتی پٹیشن بھی دائر کرچکے ہیں۔