نقطہ نظر

ساری امیدیں 'سی ایس ایس' سے ہی کیوں؟

پاکستانی نوجوانوں کے نزدیک فیڈرل پبلک سروس کمیشن ملک کا واحد ادارہ ہے جس میں میرٹ اب بھی کسی حد تک زندہ ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بے روزگاری کا خوف نوجوانوں کے ذہنوں پر ہر وقت حاوی رہتا ہے، جس کے باعث وہ اکثر و بیشتر ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اس کی ذمہ داری کلی طور پر حکومت کے اوپر عائد ہوتی ہے یا نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح پاکستان میں ایک انتہائی تشویشناک صورتحال کی عکاس ہے۔

اس بات میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے سے گریجویٹ ہونے والے طلباء ترقی یافتہ معاشروں میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کے اندر حالات اس حقیقت کے برعکس ہیں، اور بظاہر لگتا کچھ اس طرح ہے کہ یہاں کا نوجوان، خاص طور پر پڑھا لکھا نوجوان، حکومت کی ترجیحات میں قطعی طور پر شامل نہیں ہے۔

بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا سب سے بڑا سبب سرکاری شعبے میں میرٹ کا قتلِ عام ہے۔ میرٹ کے نہ ہونے کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد کمیشن کے امتحانات کی طرف مائل ہوئی ہے چنانچہ پاکستان میں کمیشن کے مختلف امتحانات میں گذشتہ مختصر عرصے کے دوران امیدواروں کی حاضری میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پڑھیے: سی ایس ایس کا فرسودہ امتحانی نظام

یہ ایک اور بات ہے کہ پاکستان میں کمیشن کے امتحانات لینے والے اکثر ادارے بھی اب آہستہ آہستہ کرپشن کی زد میں آگئے ہیں جس کی وجہ سے ان میں بھی میرٹ کا ہونا اب محض ایک افسانہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔ خصوصاً صوبائی سطح پر موجود ادارے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔

اس حوالے سے ان دنوں خاص طور پر سندھ پبلک سروس کمیشن کے معیار کے چرچے تو سرِبازار ہو رہے ہیں، جس پر تحقیقاتی اداروں کے پے در پے چھاپے اس خیال کو حقیقت کا روپ دے رہے ہیں کہ ماضی میں اس ادارے کے تحت کروائے گئے امتحانات میں کرپشن ہوتی رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کے عمومی تصور میں وفاقی سطح پر کمیشن کے امتحانات لینے والا ادارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ملک کا واحد ادارہ ہے جس میں میرٹ پر نوکریاں دینے کا رواج اب بھی کسی حد تک زندہ ہے، اور اس تاثر کی وجہ سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والے سی ایس ایس کے امتحانات میں امیدواروں کے ٹرن آؤٹ میں حیرت انگیز سطح تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

گذشتہ کچھ برسوں کے دوران ہونے والے سی ایس ایس کے امتحانات کے اعداد و شمار دیکھنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ 2009 میں سی ایس ایس کے امتحانات میں 5,707 امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی جبکہ 2010 میں یہی تعداد 7,759 کو جا پہنچی۔

2012 میں 10,066 طلباء نے سی ایس ایس کے امتحانات دیے، اور 2015 میں سی ایس ایس میں حاضر امیدواروں کی تعداد 12,176 تک جا پہنچی ہے، جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کس رفتار سے 23 سے 28 برس عمر کے امیدواروں میں سی ایس ایس کے امتحانات کے حوالے سے رجحان میں اضافہ ہوا جو کہ تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے: کاپی پیسٹ کی روایت پہنچی سی ایس ایس تک

حال ہی میں ہونے والے 2016 کے سی ایس ایس کے امتحانات کے دوران گذشتہ برسوں کی بہ نسبت امیدواروں کی حاضری کم تھی، لیکن اس کے باوجود بھی یہ تعداد ہزاروں میں ہی رہی۔ اس کمی کی وجہ کیا ہے، اس حوالے سے دو آراء گردش کر رہی ہیں جن کے مطابق کچھ امیدوار اس وجہ سے 2016 میں سی ایس ایس کے امتحانات نہیں دے سکے، کیونکہ ان امتحانات سے قبل فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس کے نصاب میں تبدیلیاں کی تھیں، جس کے باعث بیشتر امیدواروں نے 2017 میں امتحانات دینے کا ارادہ کیا۔

جبکہ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اس لیے بھی سی ایس ایس کے امتحانات دینے سے قاصر رہی کیونکہ وفاقی حکومت سی ایس ایس کے لیے عمر کی حد میں اضافہ کرنے پر غور کر رہی تھی جس کے تحت عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 28 برس سے بڑھ کر 30 برس تک ہونے کے امکانات تھے، تاہم کچھ دن قبل وزیرِاعظم نواز شریف نے سمری مسترد کر کے سی ایس ایس کے لیے عمر کی حد 28 سال پر برقرار رکھی ہے، جس کی وجہ سے امتحانات میں بیٹھنے کے خواہشمند مزید ہزاروں افراد ان امتحانات میں شرکت نہیں کر سکے۔

تاہم سی ایس ایس کے شعبے سے وابستہ مبصروں کا کہنا ہے کہ آئندہ برس ہونے والے امتحانات میں امیدواروں کی تعداد ریکارڈ سطح کو چھو سکتی ہے۔

پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان ایک مشکل ترین امتحان کے طور پر تصور کیا جاتا ہے لیکن اس میں کامیابی کا دار و مدار قسمت اور محنت و لگن کے ساتھ ساتھ درست رہنمائی پر بھی ہوتا ہے جو سندھ اور بلوچستان میں تو نہ ہونے کے برابر ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کے اکثر طلباء کے لیے سی ایس ایس کے امتحانات ایک دردِ سر بن کر رہ جاتے ہیں۔

جانیے: سی ایس ایس نظام میں موجود خامیاں

سی ایس ایس کے امتحانات میں امیدواروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت کو سنجیدگی سے سرکاری نوکریوں میں بھرتی کے لیے موجود مکینزم کو بہتر بنانا ہوگا، جس کے لیے کرپشن کا خاتمہ انتہائی مفید ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے جو میرٹ کے قیام میں اہم کردار کر سکتا ہے۔

ہر ادارے میں اسی طرح بھرتی کا نظام متعارف کروایا جائے جس طرح فیڈرل پبلک سروس کمیشن سی ایس ایس کے امتحانات لیتا ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے بیروزگار نوجوانوں کی بہت بڑی کھیپ سی ایس ایس کی طرف آتی رہے گی، جس سے نمٹنے کے لیے امتحانات لینے کا ضابطہء اخلاق سخت سے سخت تر ہوتا جائے گا۔ امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلباء کی تیزی سے گرتی ہوئی شرح اس بات کا واضح ثبوت ہے، جو کہ سال 2015 میں 4 فیصد سے بھی کم رہی۔

یہ بات بھی یقینی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جوں کا توں ہی رہا اور حکومت کی جانب سے میرٹ کی بنیاد نہیں ڈالی گئی تو بیروزگاری کا ملک سے مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔

صرف ایک شعبے میں میرٹ کو برقرار رکھ کر اس پر ملک بھر کے بے روزگار نوجوانوں کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ حکومت کو اس حوالے سے طویل مدتی اقدامات کرنے چاہیئں تاکہ سول سروسز کے امتحانات میں مقابلہ سخت تو بھلے ہو، لیکن ایک انار، سو بیمار والا حساب بھی نہ ہو۔

سالار لطیف

سالار لطیف ایک سندھی روزنامے میں فری لانس لکھاری ہونے کے ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں اور اس کے علاوہ تصوف و روحانیت پر ریسرچ کرتے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس salarlateef@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔