ترک ساحل سے 34 مہاجرین کی لاشیں برآمد
استنبول: ترک حکام کو ایگین ساحل کے دو مقامات سے کم از کم تین بچوں سمیت 34 مہاجرین کے لاشیں ملی ہیں۔
سرد موسم کی وجہ سے گزشتہ سال کے آخر میں سمندر کے ذریعے یورپ میں پناہ کے خواہاں زیادہ تر شامی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
یونانی جزیرے لسبوس پہنچنے کے خواہش مند ان مہاجرین کی ہلاکت کی بظاہر وجہ سمندر میں کشتیوں کا ڈوبنا ہو سکتا ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس واقعہ میں کتنی کشتیاں اور کتنے مہاجرین سوار تھے۔
ترک کوسٹ گارڈ کمانڈ نے رائٹرز کو بتایا کہ 24 لاشیں ایوالک کے ساحل جبکہ دس دیکیلی میں ملیں۔
کوسٹ گارڈز اور دوسرے حکام نے ایوالک کے پتھریلے ساحل سے 12 افراد کو بچا لیا۔
کوسٹ گارڈ حکام نے بتایا کہ تین کشتیوں اور ایک ہیلی کاپٹر کی مدد سے دوسرے بچ جانے والوں کی تلاش جاری ہے۔
رائٹرز ٹی وی فوٹیج میں نارنجی رنگ کی لائف جیکٹ میں ملبوس ایک لاش کو ایوالک کے ساحل پر دکھائی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی فوری شناخت نہیں ہو سکی۔
ایک نامعلوم عینی شاہد نے بتایا کہ انہیں خبر ملی کہ ایک کشتی پتھر سے ٹکرا کر ڈوبی لہذا ’ہم یہاں بطور عام شہری مدد کیلئے پہنچے‘۔
مشرق وسطی، ایشیا اور افریقہ سے پناہ گزیں اور مہاجرین ترکی کے ساحلوں پر بڑھتی پولیسنگ اور شدید ٹھنڈے موسم کے باوجود چھوٹی کشتیوں پر خطرناک سفر کرنے کا رسک لے رہے ہیں۔
مہاجرین کی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کے ترجمان جول ملمان نے جینیوا میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ اوسطاً 2500 سے زائد مہاجرین اور پناہ گزیں ترکی کے راستے یونان داخل ہو رہے ہیں۔
2014 میں 3279 کے مقابلے میں گزشتہ سال 3771 پناہ گزیں بحرہ روم سے یورپ داخل ہونے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
خیال رہے کہ نومبر کو طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق، ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت پر از سر نو مذاکرات، ویزوں اور پیسوں کے عوض مہاجرین کو یورپ پہنچنے سے روکنے کا وعدہ کیا تھا۔
ترکی بائیس لاکھ شامیوں کا میزبان ملک ہے اور شام میں پانچ سال قبل شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے وہ شامی پناہ گزینوں کی خوراک اور رہائش پر 8.5 ارب ڈالرز خرچ کر چکا ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔