نقطہ نظر

طوطے شاہ کے دانشور

دنیا مریخ سے بھی آگے جاپہنچے، لیکن ہمارے پاس جو بھی ذہنی مریض لاعلاج قرار پائے، وہی دانشور کہلواتا ہے۔

سینہ بہ سینہ سرائیت کرنے والی ایک غیر تحریری تاریخ بتاتی ہے کہ تقسیم ہند سے قبل ایک زمانہ وہ تھا جب ہمارے گاؤں میں دانشوروں کی بہتات تھی۔ مگر وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جب حکیم چراغ دین بٹوہ ، پیراں دتہ بھیدی، طورا کاں، ولی داد ضدی اور دیگر حکماء یکے بعد دیگرے اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو گاؤں میں سیانوں کا قحط پڑ گیا۔

اچھے لوگوں کے قحط کی وجہ سےگاؤں کے لوگ اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل، اور بیماریوں کے علاج کے لیے دوسرے دیہات کے دانشوروں اور سیانوں کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ اس مشکل گھڑی میں بابا خیر دین بھلکڑ جو اپنے عارضہ نسیاں کے باوجود عام سا جٹ تھا، آخری عمر میں سٹھیا گیا۔ اسے خبط ہو گیا کہ رات کو جب وہ اپنی حویلی مویشیاں کے صحن میں سو رہا ہوتا تو چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا اسے اوپر سے کنکریاں مارتی تھی۔ نیز چرخے کی آواز بابے کی نیند میں خلل بھی ڈالتی۔

چاند کی بڑھیا کے ساتھ بابا خیر دین بھلکڑ کے اختلافات کی خلیج روز بروز گہری ہوتی چلی گئی اور رات گئے دونوں کے درمیان اس طرح کی تندو تیز گفتگو سنائی دیتی جیسے آج کل ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں اور دانشوروں کے ’’ٹاک شوز‘‘ ہوتے ہیں۔ اڑوس پڑوس کے لوگوں کو بڑھیا کی آواز تو سنائی نہ دیتی، البتہ وہ خیر دین بھلکڑ کے زہر میں بجھے سوال و جواب سن کر اندازہ کر لیتے کہ بڑھیا نے کس بات پر اسے کیا طعنہ دیا ہے۔ اس دوران بابے کے شور سے ڈھور ڈنگروں میں کھلبلی سی مچ جاتی اور وہ بے چین ہوکر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تو جیسے باقاعدہ ایک ’’ ٹاک شو‘‘ منعقد ہو جاتا۔

بابا خیر دین بھلکڑ کا عارضہ بگڑتا چلا گیا اور اب اس نے چاند کی بڑھیا کے ساتھ ساتھ زمینی مخلوق سے بھی جھگڑنا شروع کر دیا۔ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا، بلا وجہ لوگوں کے ساتھ تنازعات کھڑے کر دینا، طعنہ فرسائی اور نان ایشوز کو ایشوز بنا لینا بابے کا معمول بن گیا۔ ایک دفعہ اس کی بھینس نے دودھ کم دینا شروع کردیا تو خیر دین نے اسے مقامی ہندوؤں کی سازش اور جادو ٹونے کا شاخسانہ قرار دے کر ان پر چڑھائی کردی، جس سے علاقے کا ماحول کشیدہ ہوگیا۔

آخر کار تنگ آ کر خیر دین بھلکڑ کو اس کے عزیزو اقارب نے سالم تانگہ کر کے اس میں ڈالا اور دور دراز کا سفر کر کے اپنے وقت کے عظیم مفکر، فلسفی، حکیم اور سیانے ڈگڈی پیر باوا گھمبیر شاہ المعروف طوطے شاہ سرکار کی خدمت میں لے گئے۔ باوا سرکار نے خیر دین بھلکڑ کو دو دن تک اپنے ’’انتہائی نگہداشت‘‘ کے کچے کوٹھے میں رکھ کر اس کا مفصل معائنہ فرمایا اور جب کسی بھی دم درود اور دواؤں وغیرہ نے اثر نہ دکھایا تو طوطے شاہ نے حتمی فیصلہ سنادیا کہ بابا خیر دین بھلکڑ دانشور ہو چکا ہے۔

پیر صاحب کی ’’عالمانہ تشخیص‘‘ کی خبر گاؤں میں پہنچی تو اہل دیہہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اور علاقہ بھر میں جشن کا سماں پید اہو گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس موقع پر دو من گڑ کی مٹھائی بھی تقسیم کی گئی۔ اب گاؤں کی حدود کے اندر صحت و صفائی، امن وامان، باہمی جھگڑوں اور دیگر سماجی مسائل کا حل، نیز تعلیمی و اخلاقی پالیسیاں بنانے کا بارگراں نئے دانشور کی ناتواں دانش پر آن پڑا۔

بابا خیر دین بھلکڑ نے بلا شرکت غیرے دانشوری کا عہدہ جلیلہ سنبھالتے ہی کثیر سمتی پیش قدمی کی اور بغیر وقت ضائع کیے چند ہنگامی احکامات نافذ کر دیے۔ اس نے علاقہ بھر کے واحد پرائمری اسکول میں بچوں کو داخل کرانے کے خلاف پرمننٹ اسٹے آرڈر جاری کردیا، کیونکہ دانشور کی عقابی نظریں ہندو اساتذہ کے زیر اثر آئندہ نسل کے اخلاقی بگاڑ کو دیکھ رہی تھیں۔

بابے نے فحاشی پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دیں، جن میں میلوں ٹھیلوں میں نوجوانوں کی شرکت اور کھیل کے میدانوں میں وقت ضائع کرنے جیسے ’’اخلاق باختہ‘‘ افعال شامل تھے۔

خیر دین بھلکڑ کی حیات و خدمات کا ایک کالم میں جائزہ لینا ممکن نہیں۔ ہم اس کی صرف ایک حکیمانہ کارروائی کا بلا تبصرہ ذکر کریں گے۔ شاقے قصائی کی بکری نے ساگ کھانے کے لالچ میں اپنا سر مٹی کی ہانڈی میں ایسا پھنسایا کہ وہ خاندان بھر کی محنت شاقہ کے بعد بھی نہ نکلا۔ آخر بکری کو اسی حالت میں دانشور کے حضور پیش کیا گیا، جس نے معاملے کی نزاکت کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعد بکری کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔

بکری ذبح ہو چکی تو بھلکڑ نے کہا کہ اب ہانڈی کو ہلکی ٹھوکر سے توڑ دیا جائے۔ اس طرح بکری کا سر’’آزاد‘‘ ہو گیا۔ اگرچہ ہانڈی رہی نہ بکری مگر لوگوں کا خیر دین کی حکمت و بصیرت پر ایمان اور بھی پختہ ہوگیا۔

ممکن ہے کہ قارئین ہمارے گاؤں کے اس دورِ جاہلیت پر ہنس رہے ہوں مگر یاد رہے کہ آپ اور ہم آج بھی خیر دینوں کے رحم و کرم پر ہیں، جو اپنے کنویں کو بحرالکاہل سمجھنے والی مخلوق ہیں۔ اکیسویں صدی کی سائنس و ٹیکنالوجی کی شوخ و شنگ حسینہ دوپٹہ منہ میں دیے ہماری بے وقوفیوں پر ہنس رہی ہے مگر ہمارے علمے اور فضلے خیر دین بھلکڑ کے بوسیدہ افکار اور قدیم المیعاد فکر کو پروان چڑھانے پر کمر بستہ ہیں۔

اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر نت نئے تنازعات کی آبیاری اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر ڈھول پیٹنا، بے مغز بھاشن، دھرنے اور لانگ مارچ اسی سوچ کو پروان چڑھانے کی مساعی جمیلہ ہی تو ہیں۔ عارضے ہمیں انتہاء پسندی، دہشت گردی، لاقانونیت، غربت، مہنگائی، ملاوٹ، صحت و صفائی اور عدم تحفظ کے لاحق ہیں، مگر حکیم چراغ دین بٹوے ہمیں جمہوریت اور فحاشی سے بچاؤ کے کشتے کھلانے پر مصر ہیں۔

ارباب اختیار کا جعلی ڈگریوں سے وابستہ علمی معیار خیر دین کی فکری پختگی سے کیونکر مختلف ہے؟ تعلیم پر بجٹ کا دو فیصد خرچ کرنے والوں اور اسکولوں کو بموں سے اڑانے والوں کی علم دشمنی اور بابے کے حکم امتناعی کے درمیان کونسا تضاد ہے؟ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی بدولت اغیار نے کائنات کی طنابیں کھینچ کر رکھ دی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ولی داد ضدی کی طرح اپنے محدود تصور حیات اور فکری افلاس کے باوجود عقل کل ہونے کے مرض میں مبتلا دانشوروں اور رہنماؤں کی گفتگو سے رَتی برابر دانش تلاش کرنا محال ہے۔

بلا شبہ ’’بکریاں‘‘ آزادی چاہتی ہیں مگر پیراں دتے بھیدی اور طورے کاں تدبیر اور حصول علم کے ذریعے نہیں بلکہ ہم بکریوں کو ذبح کر کے ہمارے سر امریکی ہانڈی سے آزاد کرانے کے درپے ہیں۔ دہشت گردی کے انسانیت سوز واقعات پر فقط بیانات تک محدود رہنے والوں اور ڈینگی مچھر کے خلاف صرف ڈینگیں مارنے والوں کو دیکھ کر چراغ دین بٹوے کا پھونکوں سے علاج کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ سارا جہاں ہماری سر زمین کی ایک جرأت مند دختر ملالہ یوسفزئی کی عظمت کے آگے جھک گیا ہے جبکہ ہماری جہالت کی توپیں اس کے لیے فقط طعن و تشنیع کا بارود ہی اُگل سکی ہیں۔

حقیقت تویہ ہے کہ دنیا چاہے مریخ سے بھی آگے نکل جائے مگر ہم آج بھی خیر دین بھلکڑ کے عہد میں زندہ ہیں۔ یہاں جو بھی لا علاج ذہنی عارضے میں مبتلا ہے، بقول طوطے شاہ وہی ’’دانشور‘‘ ہے۔

وقار خان

لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔