میٹرو بس یا مریخ؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں
1969 وہ سال تھا، جب امریکہ ہمارے چاند پر اپنے خلابازوں کو اتارنے، اور وہاں سے بحفاظت واپس لانے میں کامیاب ہوا۔
امریکہ، جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے، نے یہ اعزاز آج سے تقریباً 45 سال پہلے حاصل کیا۔
اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے حالات کیا تھے؟
دونوں ممالک دو جنگیں لڑ چکے تھے اور 1971 میں تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔
ہندوستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ Indian Space Research Organisation اسی سال قائم ہوا، جس سال امریکی خلابازوں نے چاند پر قدم رکھا۔
آپ پوچھیں گے کہ پھر پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ SUPARCO کب قائم ہوا؟
تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان میں یہ ادارہ 8 سال پہلے یعنی 1961 ہی میں قائم ہوچکا تھا۔
سپارکو کے قیام کے پیچھے پاکستان کے سب سے مشہور اور اکلوتے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی شب و روز کی محنت تھی۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے ہی اس وقت کے صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں خلائی تحقیقات کے لیے Space Sciences Research Wing قائم کی جائے۔ اسی ونگ کو 1964 میں سپارکو، یا Space and Upper Atmosphere Research Commission کی حیثیت دی گئی۔
پڑھیے: ڈاکٹر عبدالسلام : ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
1960 میں امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے امریکی سائنسدانوں کو چیلنج دیا کہ 60 کی دہائی ختم ہونے سے پہلے پہلے امریکہ کے خلابازوں کو چاند پر اتارا جائے، اور بحفاظت زمین پر واپس لایا جائے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سائنسدان ڈاکٹر طارق مصطفیٰ اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ اس چیلنج کو پورا کرنے کے لیے امریکی سائنسدانوں کو بحرِ ہند کے اوپر کے موسمی حالات کے بارے میں ڈیٹا کی ضرورت تھی، جو اس وقت تک دستیاب نہیں تھا۔
ستمبر 1961 کے وسط میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر طارق مصطفیٰ نے واشنگٹن میں ناسا کے حکام کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پر ناسا نے پاکستان کو بحرِ ہند کے اوپر فضائی اور موسمی حالات جانچنے کے لیے راکٹ کی تیاری میں مدد دینے کی پیشکش کی، اور صرف اتنی شرط عائد کی کہ جو بھی ڈیٹا حاصل ہو، اسے ناسا کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
پاکستان نے فوراً ہی ناسا کی پیشکش قبول کرتے ہوئے پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا۔
7 جون 1962 کو پاکستان نے ناسا کی مدد سے سونمیانی میں اپنے پہلے راکٹ رہبر-1 کا کامیاب تجربہ کیا۔
پراجیکٹ پر کام کر رہی ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کر رہے تھے۔ اس تجرباتی لانچ کے ساتھ ہی پاکستان ایسی لانچ کرنے والا ایشیا کا تیسرا، جنوبی ایشیا کا پہلا، اور دنیا کا دسواں ملک بن گیا۔
مزید پڑھیے: 'مریخ پر زندگی کا ماحول موجود ہے'
Wisconsin Project on Nuclear Arms Control کی رپورٹ کے مطابق جون 1962 میں ہونے والی اس لانچ سے پہلے ہی ناسا Wallop Island اور گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں پاکستانی سائنسدانوں کو تربیت فراہم کرنے کا آغاز کر چکا تھا۔ ناسا نے خلائی تحقیق کے حوالے سے پاکستانی سائنسدانوں کو تربیت اور تجربہ فراہم کرنے کے لیے امریکی یونیورسٹیوں میں فیلوشپ اور ریسرچ پروگرام بھی شروع کیے۔
لیکن آنے والے سالوں میں پاکستان کا خلائی پروگرام سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے دھیما ہوتے ہوتے دوسرے ممالک سے پیچھے رہ گیا۔
ہندوستان نے اپنی پہلی سیٹلائٹ آریابھات 1975 میں لانچ کی، جبکہ پاکستان نے اپنی پہلی سیٹلائٹ بدر-1 1990 میں لانچ کی۔
آج انڈیا سیٹلائٹ بنانے اور لانچ کرنے میں مکمل طور پر خود مختار ہے، اور پہلی ہی کوشش میں اپنی سیٹلائٹ مریخ کے مدار میں داخل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اب بھی صرف مواصلاتی سیٹلائٹس تک محدود ہے۔
2011 میں لانچ ہونے والی Paksat-1R پاکستان کی سب سے جدید سیٹلائٹ ہے، جس کی فنڈنگ، ڈیزائن، تخلیق، اور لانچ چین کی مدد سے ہوپائی۔
اس وقت پاکستان کی صرف ایک سیٹلائٹ کام کر رہی ہے اور وہ یہ مواصلاتی سیٹلائٹ ہے۔ اکیسویں صدی میں قومی خلائی تحقیقاتی ادارہ اب تک صرف یہیں پہنچا ہے۔
ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو ایک طرف رکھ کر سوچیں، تو ISRO تقریباً انہی وسائل کے ساتھ قائم ہوا، جو پاکستان کو حاصل تھے، جبکہ تجربے اور قابلیت میں پاکستانی سائنسدان کہیں آگے تھے۔
سپارکو خلائی دوڑ میں تمام ایشیائی ملکوں سے آگے تھا۔
جانیے: کیوروسٹی خلائی مشن کی مریخ پر کامیاب کھدائی
لیکن پھر ہمیں کیا ہوا؟
چوبیس ستمبر کو جب ہندوستان کی سیٹلائٹ Mars Orbiter Mission مریخ کے مدار میں داخل ہوئی، تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔
کیوں؟
اس لیے کہ مجھے سائنس میں بے حد دلچسپی ہے اور دنیا بھر میں کہیں بھی اگر سائنس کے میدان میں کوئی کامیابی حاصل ہو، تو میرے لیے وہ خوشی کا باعث ضرور بنے گی۔ بھلے ہی وہ سمندروں میں دور دراز کسی جزیرے میں ہی کیوں نا ہو۔
لیکن اسی وقت میں نے پاکستان کے بارے میں سوچا، وہ ملک جو مجھے ملک اور ملک سے باہر ایک شناخت دیتا ہے۔
پاکستان خلائی دوڑ میں بھی پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان پولیو کے خاتمے میں بھی پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان تعلیم کے شعبے میں بھی پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان ہے کہاں!؟
سال 2014 میں بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ 11 فیصد کم کردیا گیا، جبکہ دوسرے ممالک تعلیم اور صحت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ لگا رہے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ پاکستان کی ترجیحات غلط ہیں۔
پڑھیے: بڑھتے پولیو کیسز کے خلاف حکومتی حکمت عملی نہ ہونے کے برابر
میں انفراسٹرکچر کے پراجیکٹس کا مخالف نہیں ہوں، لیکن روڈ، فلائی اوور، اسکول اور کالج بہت پہلے بن جانے چاہیے تھے اور اس وقت پاکستان کی پوری توجہ تعلیم، سائنس، اور ٹیکنالوجی کی جانب ہونی چاہیے تھی، جس میں اہمیت خلائی ٹیکنالوجی کو ہوتی۔
خلائی ٹیکنالوجی ہی کیوں؟
کیوں کہ خلائی تحقیقات میں آپ کو الیکٹرانکس سے لے کر انسانی صحت تک، سینکڑوں موضوعات پر اتنی گہری تحقیق کرنی پڑتی ہے کہ کسی بھی نئے پراجیکٹ کے لانچ ہونے سے کوئی نا کوئی ایسی دریافت ضرور ہوتی ہے، جس سے انسانیت کا فائدہ ہوتا ہے۔
یقین نہیں آرہا؟ مثال پیش ہے؛
امریکہ کی خلائی شٹل کے فیول پمپ کے ڈیزائن پر ماہرین نے ایک مصنوعی دل ایجاد کیا ہے، جو کہ اب تک 20 سے زیادہ افراد کے سینوں میں کامیابی سے دھڑک رہا ہے۔
ناسا کی ہبل دوربین کی تصاویر شروع میں کافی دھندلی ہوا کرتی تھیں۔ انہیں صاف اور واضح کرنے کے لیے ایک کمپیوٹر پروگرام بنایا گیا۔ آج وہی کمپیوٹر پروگرام بریسٹ کینسر کے مریضوں کے میموگرامز کو واضح طور پر دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
کچھ بیماریوں میں مریض کے جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے خلابازوں کے سوٹ کی طرز پر کپڑے بنائے جارہے ہیں۔
امریکہ ناسا پر ہر سال اربوں ڈالر صرف اس لیے خرچ نہیں کرتا کیونکہ اسے زمین کو خلا سے دیکھنے کا کوئی شوق ہے۔ بلکہ وہ ایسا مجموعی طور پر ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے کرتا ہے، اور اس کا حتمی نتیجہ انسانیت کی ترقی کی صورت میں ملتا ہے۔
جانیے: وعدوں کے باوجود تعلیمی بجٹ میں کمی
کئی لوگ اس وقت ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، کہ وہ مریخ تک تو پہنچ گیا، لیکن غربت نہیں ختم کر سکا۔
میں کہتا ہوں کہ پاکستان نا مریخ تک پہنچ سکا، نا ہی غربت ختم کرسکا!
وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات پر نظرِثانی کرے۔ وفاقی بجٹ میں مختص کی جانے والی رقم، اور پالیسیوں کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ سپارکو کا بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سپارکو میں ماضی میں بھی قابلیت اور اہلیت موجود تھی، اور اب بھی موجود ہے۔ میں ایک دفعہ ایک نمائش میں سپارکو کے سائنسدانوں سے مل چکا ہوں، اور میں ان کے جذبے سے کافی متاثر ہوا تھا۔
اب بھی اگر حکومت اس جانب توجہ دے، تو سپارکو علاقائی اسپیس پروگرام میں سب سے آگے نکل سکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ہندوستان پہلی ہی کوشش میں مریخ تک پہنچ گیا ہے، تو پاکستان بھی کسی نئے آسمان پر پہلی ہی کوشش میں پہنچے گا۔ لیکن اگر کوشش کرے تو۔
کیا پتہ پاکستان پلوٹو سیارے جتنا دور تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے؟
اس کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر محض نعرے بازیوں پر اکتفا کیا گیا، تو ایسا ہونا مشکل ہے۔
بلال کریم مغل ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔