نقطہ نظر

... مودی کی جیت کے بعد

مودی کے سامنے بہت سے مسائل ہیں- ان میں سے ایک تو خود ان کا آمرانہ مزاج ہے-

"کوئی بھی حکومت جو ملک کی بڑی اقلیت ہو، لیکن ہاؤس آف کامنز میں اسے اتنی اکثریت حاصل ہو کہ وہ کام کرسکے، اس کے پاس اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ حقیقی مسائل سے نمٹ سکے۔"

یہ دانشمندانہ بات ونسٹن چرچل نے 2 جون 1931 کو ہاوس آف کامنز میں کہی تھی اور اس کا اطلاق بڑی حد تک نریندر مودی کی حکومت پر ہوتا ہے جو 26 مئی 2014 کو بر سر اقتدار آئی-

543 نشستوں کی 16ویں لوک سبھا میں بی جے پی کو 282 سیٹیں ملیں جو اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتی کہ اسے کل ووٹوں کے 31فی صد ووٹ ملے جو ایوان کی 62 سالہ تاریخ میں سب سے کم ہے- کانگریس پارٹی کا سب سے کم فی صد 1967 میں تھا جبکہ وہ 40.8 فی صد ووٹ لیکر 520 کے ایوان کی نشستوں میں سے 283 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی-

ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں بی جے پی کو 240 میں سے صرف 64 نشستیں ملی ہیں جبکہ کانگریس کو 68- نریندر مودی کے سامنے بہت سے مسائل ہیں- ان میں سے ایک تو خود ان کا آمرانہ مزاج ہے- دوسرے ہی دن انھوں نے کونسل آف منسٹرز کے حلف کے فوراً ہی بعد ان کے عہدوں کا اعلان کردیا-

کیبنٹ میں بڑی تعداد آر ایس ایس کے امیدواروں کی ہے- عہدوں کی تقسیم پر خود وزیر اعظم کی جماعت کے لوگوں کو اعتراض تھا- عہدوں کے سلسلے میں، "یہ ایک اہم پالیسی مسئلہ" تھا- وزیر اعظم کا آفس ان تمام معاملات سے نمٹے گا اور انھیں کنٹرول کرے گا جنھیں وہ اہم سمجھتا ہے- پالیسی سازی وزیر اعظم کے آفس کا استحقاق ہوگا اور اسکی نگرانی خود وزیر اعظم کرینگے-

رچرڈ کراسمین نے اس عمل کو مشہور زمانہ صدارتی حکومت قرار دیا تھا جس کا ذکر انھوں نے Bagehot کی کلاسیک The English Constitution کے دیباچے میں کیا تھا- پرائم منسٹر ہیرولڈ ولسن نے بلا پس و پیش اس نظریہ کو مسترد کردیا تھا-

مارگریٹ تھیچر کو اس نظریے کے غلط ہونے کا اس وقت علم ہوا جب ان کی کیبنٹ نے جو اسکو طویل عرصے سے سہہ رہی تھی ان کے خلاف بغاوت کردی- نریندر مودی نے بھی پارٹی اپنی جاگیر بنالی ہے- انھوں نے پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کو وزیر داخلہ کا عہدہ دیا ہے-

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ساتھ ان کے تعلقات کچھ مبہم قسم کے ہیں اور یہ وہی جماعت ہے جس نے بی جے پی کی مورث پارٹی اور پھر خود بی جے پی بنائی تھی اور وہ طویل عرصے سے اس کے حمایتی رہے ہیں-

کیبنٹ میں بہت بڑی تعداد میں RSS کے کارکنوں کو لیا گیا ہے جسکی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی- بی جے پی کا منشور بھی آر ایس ایس کے ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر تین چیزیں جو انتہائی متنازعہ ہیں- ایک تو آئین کی شق 370 کا خاتمہ جسکے تحت جموں اور کشمیر کو خودمختاری حاصل ہے، دوسرے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور تیسرے مسلم پرسنل لا کی جگہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ-

تاہم، آر ایس ایس کبھی بھی اپنے کارکنوں کو لا محدود اختیارات نہیں دیتی- قابل ذکر بات یہ ہے کہ پارٹی کے ترجمان اخبار آرگنائزر میں 25 مئی کو ایم جی ودیا کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے 'آر ایس ایس اور ہیرو ورشپ'-

مضمون میں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ؛ "آر ایس ایس کے بانی نے جو عمل اختیار کیا تھا اس میں ہیرو ورشپ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی-"

آر ایس ایس کے حامیوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ دیں- لوکل میڈیا پر اس کی مہنگی مہم طمطراق سے جاری رہی: بی جے پی بتائے گی تو نہیں لیکن اس نے کم از کم ایک بلین ڈالر صرف کئے ہونگے-

541 جیتنے والے امیدواروں میں سے 442 کا تعلق کارپوریٹس سے ہے --- ان میں سے بی جے پی کے امیدوار 237 ہیں جبکہ 35 کا تعلق کانگریس سے ہے-

مسلمانوں کی آبادی 15 فی صد ہے- بی جے پی نے صرف 7 امیدوار کھڑے کئے اور سب کے سب ہار گئے جن میں ان کے پوسٹر بوائے شہنواز حسین بھی شامل ہیں- 1952سے دیکھا جائے تو اس وقت لوک سبھا می مسلمانوں کی تعداد سب سے کم ہے-

دو معروف پولیٹیکل سائنٹسٹس کرسٹوفر جافریلوٹ اور گیلس ورنیئرز نے لکھا ہے:

پارٹیوں کے لحاظ سے ہندوستان کے عام انتخابات میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ جیتنے والے ممبرز آف پارلیمنٹ میں ایک بھی مسلمان نہ ہو- بی جے پی کے معاملے میں اس سے ایک خاص حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے- اس سے ان اقلیتوں کی شناخت ہوتی ہے جو بی جے پی کی حمایت کرنا نہیں چاہتے اور دوسری تمام پارٹیوں کی توجہ چاہتے ہیں اور ساتھ ہی دڑاڑیں ڈال کر اور ان اقلیتی جماعتوں کے اراکین کے دیگر مقامی گروپوں کے ساتھ اتحاد کو روکنا چاہتے ہیں-

حقیقت تو یہ ہے کہ، پارٹی نے 428 امیدواروں میں سے صرف سات مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے --- دوسری طرف کانگریس کا ریکارڈ بھی اس بار اچھا نہیں تھا، اس نے صرف 5.8 فی صد مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے-

اپنے وعدوں کو توڑنے کے باعث مسلمانوں میں کانگریس سے ناراضگی تھی اس لئے انھوں نے دوسری پارٹیوں کا رخ کیا اور ان کے ووٹ بٹ گئے- بعد ازاں ٹی وی پر مسلمانوں کے اماموں کے ان بیانات کو دیکھ کرغصہ آرہا تھا کہ ان کو مودی میں خوبیاں نظر آرہی تھیں-

مودی نے نجمہ ہپتولہ کو اقلیتی امور کا وزیر مقرر کیا ہے جو کانگریس کی ایک سینیئر رکن تھیں اور تقریباً دس سال پہلے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی سے جڑ گئیں- بطور وزیر ان کا پہلا بیان تھا: "مسلمان اقلیت نہیں ہیں- پارسی اقلیتیں ہیں- ہم دیکھیں گے کہ ہم ان کی مدد کس طرح کرسکتے ہیں تاکہ ان کی تعداد میں کمی واقع نہ ہو-"

مودی ہندوستان کی سیاست کے ڈھانچے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر اس کے سیکیولرازم کے نظریے کو- میڈیا میں اس کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی- سیکیولرازم کی لڑائی سنجیدگی سے شروع ہوچکی ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

اے جی نورانی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔