اسموگ تدارک کیس: تعمیرات پرپابندی برقرار، ’ورک فرام ہوم‘ پالیسی بنانے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ تدارک کیس میں تعمیرات پر پابندی برقرار رکھنے اور اسکولوں اور دفاتر کے لیے ورک فرام ہوم پالیسی بنانے کے احکامات جاری کردیے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب تک ڈپٹی کمشنرز کے تبادلے نہیں کریں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔
لاہور ہائی کورٹ میں اسموگ تدارک کیس کی سماعت ہوئی، ممبر کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ٹاؤن شپ میں الیکٹرک بسوں کے ڈپو بنانے کے لیے درخت کاٹے گئے ہیں، اطلاعات ہیں یہ تمام درخت کاٹ کر ٹمبر مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ کاٹے گئے درخت کہاں جاتے ہیں، اگر درخت کاٹنے کی بات درست ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے گا، عدالت نے اس سلسلے میں سیکریٹری ٹرانسپورٹ پنجاب کو طلب کر لیا۔
ٹولنٹن مارکیٹ میں ایکشن پر توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی، عدالت نے کمیشن ارکان کو درخواست میں فریق بنانے پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشن واپس لیں ورنہ درخواست گزار کو اندر کر دیں گے، عدالت نے 50 ہزار روپے جرمانہ کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
عدالت نے کہا کہ جب تک ڈی سیز کے تبادلے نہیں کریں گے معاملات درست نہیں ہوں گے، ٹرانسپورٹ کی جانچ پڑتال کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے جس میں تمام ڈیٹا موجود ہو۔
عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ اسکولوں اور دفاتر کے ورک فرام ہوم پالیسی بنائیں، تعمیرات کا کام شروع نہیں ہونا چاہیے، عدالت نے سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کردی۔
لاہور میں 3 دن ہر قسم کے ہیوی ٹریفک پر پابندی عائد
دوسری جانب حکومت پنجاب نے لاہور میں 3 روز کے لیے ہر قسم کے ہیوی ٹرانسپورٹ کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے اور جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو کسی بھی قسم کے ہیوی ٹریفک بشمول لوڈر اور ٹریکٹر ٹرالی کو شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
پابندی کو یقینی بنانے کے لیے ڈی ایس پیز کی نگرانی میں شہر کے 12 داخلی و خارجی راستوں پر نفری تعینات کردی گئی۔
چیف ٹریفک افسر (سی ٹی او) لاہور عمارہ اطہر کے مطابق ہیوی ٹریفک، خستہ حال، انتہائی خطرناک حد تک کالا دھواں چھوڑنے والی اور فٹنس سرٹیفکیٹ نہ رکھنے والی گاڑیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول، ادویات، اشیائے خور و نوش اور مسافروں کی آمد و رفت میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کو جانچ پڑتال کے بعد شہر میں داخلے کی اجازت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پابندی کے اطلاق کو 100 فیصد یقینی بنایا جارہا ہے، ٹرانسپورٹرز اسموگ کے تدارک اور صحت مند آب و ہوا کے لیے حکومتی احکامات کی پاسداری کریں، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہوگی۔
ادھر لاہور ٹریفک پولیس کی طرف سے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔
عمارہ اطہر نے کہا کہ روزانہ سیکڑوں گاڑیوں کو بند کیا جارہا ہے اور لاکھوں کے جرمانے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہر میں 41 انسدادِ اسموگ اسکواڈز بھی تشکیل دیے گئے ہیں جن کی کارروائیاں جاری ہیں، رواں سال 62 ہزار ہیوی ٹریفک، 13 ہزار ٹریکٹر ٹرالیز اور 16 ہزار کار اور موٹرسائیکلوں کو جرمانے کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ملک کا دوسرا بڑا شہر لاہور پچھلے کئی ہفتوں شدید اسموگ کی لپیٹ میں رہا، ملک کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں 246 اے کیو آئی پوائنٹس کے ساتھ لاہور آج بھی دوسرے نمبر پر ہے۔
ڈان میں گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سائنسی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فضائی آلودگی سے سر اور گردن میں کینسر ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کی قیادت وین اسٹیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے شعبہ اوٹولیرینگولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جان کریمر اور شعبہ اوٹولیرینگولوجی کے میڈیکل ریزیڈنٹ جان پیلمین نے کی تھی۔
اس حوالے سے پروفیسر جان کریمر نے کہا تھا کہ ’فضائی آلودگی پر اس سے قبل بھی تحقیق کی جا چکی ہے لیکن اس کے اثرات زیادہ تر نظام تنفس کے نچلے حصے میں کینسر سے جڑے ہوئے تھے۔‘
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے گزشتہ دنوں اسموگ کو سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے 2 لاکھ 50 ہزار قبل از وقت اموات کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ہمارا خود کا پیدا کردہ ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے نمائندے عبداللہ فادل نے کہا تھا کہ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر ایک کروڑ سے زائد بچے اسموگ کے خطرے سے دو چار ہیں۔