خضدار میں بچی کی جبری شادی، وفاقی شرعی عدالت نے رپورٹ طلب کرلی
وفاقی شرعی عدالت میں بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی 5 سالہ بچی کی جبری شادی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے صوبائی حکومت کو معاملے کی تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل فُل بینچ نے کیس کی سماعت کی اور صوبائی حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ جبری شادیوں کو ختم کرنے کے قانون اور اس حوالے سے اقدامات پر صوبائی حکومت سے رپورٹ پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: کم عمری، جبری شادی کے خلاف بل منظور، سول سوسائٹی معترف
بعد ازاں فریقین کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں پانچ سالہ بچی کی جبری شادی کے خلاف والد نے خضدار پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروایا تھا جس کے بعد واقعے کی رپورٹ میڈیا پر چلنے کے بعد چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے واقعے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
والد نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک قتل کا تنازع حل کرنے کے لیے جرگے کے احکامات پر ان کی بیٹی کی زبردستی شادی کی گئی۔
یہ مقدمہ کم عمر بچوں کی شادی روکنے کے ایکٹ 1929 کی دفعہ 1-6 کے تحت درج کیا گیا تھا، دفعہ کے تحت ایسے افراد جو کم عمر بچوں سے شادی کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں ان کو 6 ماہ کی سزا دی جائے گی جبکہ دفعہ 34 ان افراد کے خلاف ہے جو مشترکہ نیت کے ساتھ غلط کام کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جبری شادی غیر اسلامی اور آئین کی خلاف ورزی ہے اس لیے چیف جسٹس نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
مزید پڑھیں: سندھ: 2014 میں ایک ہزار261 خواتین جبری شادی کیلئے اغوا
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں آج بھی غیر اسلامی اور ظالمانہ رسومات اپنائی جاتی ہیں جہاں آپس کے جھگڑے ختم یا قتل کے معاملے حل کرنے کے لیے لڑکیوں کی زبردستی شادی کردی جاتی ہے یا انہیں غلام بنا دیا جاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان ظالمانہ رواج کی وجہ سے عورت کی آزادی محدود ہوکر رہ جاتی ہے، اس لیے یہ اسلامی احکامات اور آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔