اسلام آباد میں ملک کے پہلے مخنث تحفظ و بحالی سینٹر کا قیام
وفاقی وزارت انسانی حقوق نے دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے پہلے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن سینٹر کو خواجہ سرا افراد کے تحفظ اور بحالی کے لیے کھول دیا۔
ڈان اخبار کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9/4 میں قائم کیے گئے پروٹیکشن سینٹر کا افتتاح 13 اکتوبر کو وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کیا۔
مخنث تحفظ و بحالی سینٹر کے افتتاح کے موقع پر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ مذکورہ سینٹر کی طرح دیگر شہروں میں بھی سینٹر قائم کیے جائیں گے، جن میں خواجہ سرا کمیونٹی کے افراد کو ہر طرح کی معاونت فراہم کی جائے گی۔
شیریں مزاری نے بتایا کہ ٹرانس جینڈر پروٹیکشن سینٹر میں مخنث افراد کو قانونی، طبی، تکنیکی اور دیگر طرح کی مدد فراہم کی جائے گی اور انہیں معاونت کے ذریعے ہر طرح سے خود مختار بنایا جائے گا۔
وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کی بحالی پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہیں احساس پروگرام میں شامل کرنے سمیت انہیں ہیلتھ کارڈ بھی جاری کیے۔
تقریب میں بتایا گیا کہ مذکورہ بحالی سینٹر ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے سیکشن 6 اے کے تحت کھولا گیا اور اسی طرح کے دیگر سینٹرز ملک کے باقی شہروں میں بھی کھولے جائیں گے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق سینٹر کی افتتاحی تقریب سے وزارت انسانی حقوق کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت انسانی حقوق کی رہنماؤں اور خواجہ سرا کمیونٹی کے متحرک کارکنان نے بھی خطاب کیا۔
تقریب میں ایوارڈ یافتہ خواجہ سرا کے حقوق کی کارکن، سیاستدان اور سماجی رہنما نایاب علی بھی شریک ہوئیں۔
افتتاحی تقریب میں متعدد خواجہ سرا افراد بھی شریک ہوئے، جنہوں نے پروٹیکشن سینٹر کے قیام پر حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا۔
مذکورہ بحالی سینٹر ملک کا پہلا مخنث افراد کا تحفظ و بحالی کا سینٹر ہے، اس سے قبل اسلام آباد میں ہی رواں برس مئی میں خواجہ سرا کمیونٹی کے افراد نے ٹرانس جینڈرز کی دینی تعلیم کے لیے ملک کا پہلا مدرسہ بھی کھولا تھا۔
علاوہ ازیں ملتان سمیت ملک کے دیگر شہروں میں گزشتہ چند سال سے خواجہ سرا افراد کی تعلیم اور ان کی تکنیکی تربیت کے لیے تعلیمی ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل کراچی میں خواجہ سرا افراد کے ملک کے پہلے مخ۔ث ٹیلر شاپ کو بھی رواں برس کھولا گیا تھا۔
حالیہ چند سال میں پاکستان بھر میں مخنث افراد کو سرکاری اداروں سمیت نجی اداروں میں ملازمتیں بھی دی جا رہی ہیں جب کہ ٹرانس جینڈر افراد اپنی مدد آپ کے تحت بھی پروفیشنل کام کرنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیشا راؤ ایم فل میں داخلہ لینے والی پہلی مخنث وکیل بن گئیں
یہ بات بھی یاد رہے کہ پاکستان میں پہلی بار 2009 میں مخنث افراد کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، اس وقت سپریم کورٹ نے مخنث افراد کو تیسری جنس کے طور پر پیدائشی سرٹیفکیٹ سمیت شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد ہی انہیں الگ جنس کے شناختی کارڈ مہیا کیے جانے لگے۔
پاکستان میں مخنث افراد کی حتمی تعداد کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں، تاہم سال 2017 کی مردم شماری اور مختلف رپورٹس کے مطابق ملک میں مخنث افراد کی تعداد 10 لاکھ تک ہے، تاہم بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
مخنث افراد زیادہ تر شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات میں رقص کا مظاہرہ کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں، جبکہ کچھ گداگری بھی کرتے ہیں۔