بیگانگی کے جالے
زی ٹی وی کے سی ای او سبھاش چندرا کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف کی حالیہ گفتگو قابل غور ہے کیونکہ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے ظاہر ہوتاہے کہ دونوں ملکوں کےعوام کے درمیان رابطے کے فقدان کی صورت حال واقعی افسوسناک ہے-
جناب شریف نے کہا کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے میڈیا کو زیادہ سے زیادد سہولتیں دیں تاکہ وہ دونوں ملکوں کے زیادہ سے زیادہ ناظرین کی پہنچ میں ہوں- انہوں نے ہندوستان کی حکومت سے قوانین میں نرمی کیلئے بھی کہا تاکہ ہندوستان میں لوگ پاکستانی چینلوں کو بھی دیکھ سکیں-
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کے تفریحی چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں جبکہ نیوز چینلز پر پابندی ہے- اس کے برخلاف ہندوستان میں پاکستان کے تمام چینلوں پر پابندی عائد ہے- وزیر اعظم نے بالکل درست طریقے سے میڈیا کے رول کو اجاگر کیا جو وہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے ادا کرسکتا ہے-
اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعہ دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ، اختلاف رائے کی مضبوطی اور جمہوری مباحث کا صحت مند راستہ نکلتا ہے- دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کیلئے اپنے سرکاری ذرائع پر انحصارکرنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو عام طور پرمخصوص نقطہ نظررکھتا ہے -
ذاتی تجربہ پر مبنی ایک مثال اس نکتے کو ثابت کرنےکیلئے کافی ہے- جولائی 2008 میں آگرہ مذاکرات کے موقع پر پہلے ہی دن اسوقت کی وزیراطلاعات اور براڈکاسٹنگ سشما سوراج نے دونوں ملکوں کے میڈیا کے سامنے ان تمام معاملات کی فہرست بتا دی جن پر بات ہوئی تھی، سوائے کشمیر کے اور یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا-
اس کی متضاد وجوہات بتائی گئیں، کشمیر توبہر صورت ضروری تھا انہوں نے بعد میں بتایا مگر ان کواتنا ہی کہنے کو کہا گیا تھا- میں نے پی ٹی وی کی طرف رجوع کیا تو اینکر بتارہا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی مندوب سے بات کی تھی جس نے بتایا کہ سربراہ کانفرنس میں کشمیر کے مسئلہ پر تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی- پی ٹی وی پر یہ پابندی 2002 سے لگائی گئی جس کی وجوہات سرکاری طور پر کبھی ظاہرنہیں کی گئیں-
ہندوستان کی سیکیورٹی کو پی ٹی وی نے کبھی نقصان نہیں پہنچایا- اس وقت بھی نہیں جب پنجاب میں ریڈکلف لائین پر اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کی فوجیں جمع تھیں اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ اگر اجازت دی گئی تو آل انڈیا ریڈیویا یا کوئی اور چینل بھی کسی طرح کا کوئی نا پسندیدہ کام پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کریگا-
سچ تو یہ ہے کہ میڈیا کی آزادای کی طرف بڑھنے کی بجائے ہم اور پیچھے چلے گئے ہیں- 1965 کی جنگ تک ہمارا اخبار صرف بمبئی میں ہی بکتا تھا- لیکن ریڈیو پاکستان دور دور تک سنا جا سکتا تھا-
ٹیلی ویژن کے دیو نے ریڈیو کو نگل لیا ہے جو کہ خبروں کی ترسیل کے حوالے سے ایک زیادہ بہتر وسیلہ تھا کیونکہ ریڈیومینوفیکچررز نے آپ کی سہولت کیلئے صرف ایف ایم اور اے ایم دونوں دیے تھے گرچہ شارٹ ویواتنا آسان نہیں تھا- ہم اور زیادہ کم مایہ ہو گئے ہیں خصوصا اپنے پڑوسی کے بارے میں خبروں کے حوالے سے- ایسا پڑوسی جس کی خیریت کی خبر سے ہماری بہتری سے جڑی ہوئی ہے-
بٹوارے کے چودہ سال کے بعد، اپریل 1961 میں جب کہ کشمیر کا قضیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گرماگرم بحث کا موضوع بنا ہوا تھا- نئی دہلی میں ایک ہندوپاک کلچرل کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا- اس تقریب کی کارروائیوں کی رپورٹ کسی کیلئے بھی ایک تحفہ سے کم نہیں ہوتی-
اس کا افتتاح وزیر اعظم جواہرلعل نہرو نے کیا تھا- اس موقع پر آثارقدیمہ، تاریخ، تعلیم، فائن آرٹس، لسانیات، جرنلزم اور فلم کے موضوع پرعالمانہ مقالے پڑھے گئے- پاکستان کے وفد کی سربراہی ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی نے کی تھی جنہوں نے دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طورپرنمایاں خدمات انجام دی تھیں-
اردوخصوصی توجہ کا مستحق قرار پائی -
اس کانفرنس کی سفارشات عدم توجہ کا نشانہ بنیں جوآج نصف صدی کے بعد یاد کئے جانے کے قابل ہیں- سفارشات یہ تھیں:
1۔ (ا) ادبی اور ثقافتی معاملات میں معلومات کے تبادلے کے لئے دونوں ملکوں میں مراکز قائم کئے جائیں-
(ب) دونوں ملکوں سے وفود ایک دوسرے کے ہاں وقتاً فوقتاً آتے جاتے رہیں-
(ج) یونیورسٹی اور دوسرے علمی ادارے ایک دوسرے کے ہاں سے آنے والے طالب علموں اورریسرچ اسکالروں کو سہولتیں اور کام مہیا کریں-
(د) پروفیسروں اور طالب علموں کے تبادلوں کی ہمت افزائی کی جائے-
(ذ) مندرجہ ذیل کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں-
1۔ آثارقدیمہ کی تعلیم، کتابیں، ریکارڈ، دستاویزات، سائیٹ تک پہنچنے کی سہولت، جرنل وغیرہ اورانکی فوٹو کاپی کی سہولت، مائیکروفلم، فوٹواسٹیٹ وغیرہ۔
2۔ دونوں ملکوں میں شائع ہونے والے جرنل اورکتابوں کی ایک دوسرے کے ہاں ترسیل اورتبادلے کی سہولتیں-
3. انفرادی اسکالرزکو ان کی اپنی پیچھے چھوڑی ہوئی کتابوں کی واپسی کی سہولت-
(ف) سائینٹفک موضوعات اورعلمی موضوعات پروقتاً فوقتاً کانفرنسیں منعقد ہونی چاہئیں جن میں دونوں ملکوں کے نمائندے حصّہ لیں -
2. یہ کانفرنس ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے پبلشرز اور مصنفین کے کاپی رائیٹ کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور اس مقصد کیلئے ایک باقاعدہ معاہدہ کیا جائے-
دونوں حکومتیں یہ طے کریں کہ ان کے عوام کا رابطہ کس سطح کا ہوگا اور ان کے عوامل کیا ہونگے-
ہندوستان میں کسی سیمینار کے منتظمین کو وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ دونوں سے اجازت لینی پڑتی ہے اگر وہ پڑوسی ملکوں سے کسی کوشرکت کی دعوت دیں یا اگر سیمینار کا موضوع سیاسی ہو-
پاکستان میں وزارت داخلہ کی بلاشبہ اپنی بندشیں ہیں- رہے عوام تو وہ بچارے ان بندشوں کا شکارہیں جس کے نتیجے میں لاتعلقی کا جال بنا جاتاہے- پاکستانی ٹی وی پچھلی ایک دہائی میں بہت زیادہ دولتمند ہو گیا ہے اورکافی متنوع بھی ہوگیا ہے-
اوردونوں ملکوں میں اختلافی سوچ بھی بہت واضح طورپردکھائی دیتی ہے جو ایک پرامید تبدیلی ہے-
ہمیں ان دونوں باہم جھگڑتی ریاستوں پر دباؤ ڈالنا ضروری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو گھومنے پھرنے کی اور کہیں سے بھی معلومات حاصل کرنے کی آزادی دیں-
اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ ہم ہربات کیلئے عدالتوں کی طرف دیکھیں- نشریات پرپابندی لگانا بالکل غیرقانونی ہے جیسے سفر کرنے کی آزادی پر- ہر شہری کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ جس مصنف، فنکاریا سائنس داں کوچاہے سنے جس کو کوئی تنظیم کسی کانفرنس میں حصّہ لینے کیلئے بلائے-
اس کو ویزا دینے سے انکارکرنا اسکے معلومات حاصل کرنے کے حق سے انکارکرنا ہے، اس نکتہ پرایک اسلامی اسکالر طارق رمضان کے کیس میں امریکہ میں بحث ہو چکی ہے- لیکن امریکہ کی عدالتیں ریاست کے نیشنل سیکورٹی کے معاملے میں دخل اندازی سے کتراتی ہیں- یہ وقت سول سوسائٹی کو اپنے آپ کو منوانے کا ہے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری