’آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا طریقہ کار ترک کیا جائے‘
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالہ کیا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا طریقہ کا ترک کر کے اس کا فیصلہ ترقی یافتہ اور پسماندہ علاقوں کے تناظر میں کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی برائے پسماندہ علاقہ جات کا اجلاس سینیٹر عثمان کاکڑ کی زیر صدارت ہوا جس میں کہا گیا کہ حکومت کو آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم روک دینی چاہیے کیوں کہ ملک کی 71 فیصد آبادی پسماندہ علاقوں میں رہائش پذید ہے جنہیں بجٹ میں صرف 20 فیصد حصہ مل پاتا ہے۔
مذکورہ اجلاس پسماندہ علاقوں میں کام کرنے والی وزارت صنعت و پیداوار کی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی فعالیت پر غور اور نظرِ ثانی کرنے کے لیے بلایا گیا تھا، جس میں کمیٹی نے آئندہ بجٹ میں ان علاقوں کے لیے زیادہ رقم مختص کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ’آبی وسائل کی قلت‘ کے شکار 15 ممالک میں شامل
سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ثقافت کا گڑھ اور معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود قبائلی علاقے (سابق فاٹا) اور پاٹا، سندھ کے اندرونی علاقے، پنجاب (بڑے شہروں کے علاوہ) اور بلوچستان کم ترقی یافتہ علاقے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ افسوس کا مقام ہے، ہمیں آبادی کی بنیاد پر فنڈز کی تقسیم کا یہ طریقہ کار تبدیل کرنا چاہیے‘۔
خیال رہے کہ اس وقت قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت صوبوں کے درمیان قابلِ تقسیم ٹیکسز کے طریقہ کار میں 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر مختص کیے جاتے ہیں، 10.3 فیصد پسماندگی اور 2.7 فیصد کا فیصلہ آبادی سے ہٹ کر کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک سینیٹر کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ کثیر آبادی والے علاقوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے صنعت و پیداوار عبدالرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ ملک اور دنیا کے ہر علاقے کی اپنی اہمیت اور خوصیت ہے جسے فروغ دیا جاسکتا ہے ار وزارت صنعت و پیداوار اس مقصد کے لیے تندہی سے کام کررہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئلے کی کان کنی اور توانائی کے پلانٹ کی تنصیب سے تھرپارکر کا علاقہ مستقبل قریب میں مکمل تبدیل ہوجائے گا۔
اس موقع پر کمیٹی کو ’ایک ہنر ایک نگر (اہن)‘ جیسے پروگرامز کے ذریعے خیبر سے کراچی تک پسماندہ علاقوں میں صنعتوں کے فروغ سے آگاہ کیا گیا، جس میں مقامی ہنرمندوں کے کام کو فروغ مل رہا ہے۔
کمیٹی اراکین نے آہن کی خدمات کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ اس کے کام میں آنے والی تمام مشکلات دور کی جائیں، اس پر سینیٹر راحیلہ مگسی نے پیشکش کی کہ آہن ٹنڈو الہیار میں موجود ان کے باغ میں مفت میلے کا اہتمام کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: این ایف سی اجلاس: 18ویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم پر اتفاق
اس حوالے سے سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ چھوٹے علاقوں میں کچھ صنعتوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے، مثال کے طور پر مالاکنڈ ڈویژن میں قائم استیل ملز جو ماحولیاتی تنظیموں کی مداخلت کی بنا پر بند کردی گئیں۔
انہوں نے کہ اس قسم کے صنعتوں کو قیام سے قبل عدم اعتراض کا تصدیق نامہ حاصل کریں اور ماحول کا تحفظ یقینی بنائیں، انہوں نے کہا کہ اس قسم کی صنعتوں کی بندش سے نہ صرف سرمایہ کاروں و نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ بہت سے لوگ روزگار سے بھی محروم ہورہے ہیں۔
تھرپارکر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر گیان چند نے کہا کہ وہاں موجود دستکاروں کو فروغ دینے کے لیے پالیسی بنائی جانی چاہیے، تھر میں کوئلے کی کان کنی کے منصوبوں کے لیے پورے علاقے کو خالی کروالیا گیا اور اب وہاں کوئی گاؤں نہیں جسے بجلی میسر ہو حالانکہ وہاں قائم منصوبوں کو بجلی کی فراہمی جاری ہے۔
یہ خبر 8 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔