پختون ثقافتی شناخت کے فروغ کیلئے پشتو البم ریلیز
نوجوان پشتو لوک گلوکار راشد خان نے اپنا پہلا موضوعی میوزک البم، ’دا وخت آواز’ (وقت کی آواز) جمعے کے دن پشاور میں ریلیز کیا۔
راشد خان جامعہ پشاور کے شعبہ پشتو میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور ایسے پہلے محقق ہیں جو پشتو لوک شاعری اور لوک موسیقی کی تاریخ پر تحقیق کر رہے ہیں۔ دو سال کے وقفے کے بعد ریلیز ہونے والے میوزک البم میں انہوں نے 9 مختلف موضوعات پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، جن میں حب الوطنی، امن، سماجی آگاہی اور پختون ثقافتی شناخت وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں امید ہے کہ فطری احساس سے بھرپور ان کا البم اپنے قدرتی ذائقے کی وجہ سے پشتو موسیقی کی دنیا میں ایک نیا رجحان پیدا کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ ایسی پشتو شاعری کا انتخاب کیا جو پختونوں کی موجودہ صورتحال کی آئینہ دار ہے اور ان تک پیغام بھی پہنچاتی ہے۔ اس ویڈیو البم کو خیبرپختونخوا کے کئی خوبصورت مقامات پر عکس بند کیا گیا ہے جبکہ استعمال کیے گئے سازوں میں طبلہ، رباب، ہارمونیم، بانسری، ستار، ڈولک اور کی بورڈ کمپوزیشن شامل ہے۔
ضلع صوابی کے رہائشی راشد خان کے خاندان کا موسیقی سے کوئی تعلق نہیں مگر موسیقی ان کی خداداد صلاحیت ہے۔ انہیں اپنے گھروالوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر جب وہ گریجوئیشن کر رہے تھے تب انہیں آخر کار اجازت مل ہی گئی۔ راشد خان نے بتایا کہ وہ محمد رفیع، استاد شاہ ولی، خیال محمد، سردار علی ٹکر اور ناشناس سے کافی متاثر ہیں۔
انہوں نے موسیقی کی دنیا میں 6 برس پہلے قدم رکھا اور چار برس تک فاروق استاد اور ماس خان وصال سے 4 سال موسیقی میں تربیت حاصل کی۔ یہ ان کا 7 واں پشتو البم ہے جبکہ مخصوص موضوعات کے اعتبار سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا البم ہے۔ اس البم میں رحمت شاہ سائل، غنی خان، ملنگ جان استاد، امیر محمد خان، اباسین یوسفزئی، عزیز مانروال، فیض علی فیض اور میروائس یوسفزئی کی شاعری پر سر بکھیرے گئے ہیں۔
راشد کہتے ہیں کہ، ‘میں اس البم کو موضوعاتی اس لیے کہتا ہوں کیونکہ میں نے البم میں کچھ ان انتہائی ممتاز شعرا کی لکھی شاعری کو شامل کیا ہے جنہوں نے پختون خطے میں بڑھتی کشمش کی صورتحال پر لکھا ہے۔ ان کی شاعری پختونوں کی موجودہ زمینی و سیاسی صورتحال کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔ وطن سے محبت، خطے میں پائیدار امن کے قیام کی پکار، سماجی تعلیم اور ہمارے ثقافتی تاثر کی حیاتِ نو اس شاعری کے نمایاں موضوع ہیں۔’
انہوں نے البم کا ایک گانا سوشل میڈیا پر ریلیز کیا، جس پر ان کے مداحوں کی جانب سے زبردست رد عمل آیا۔
راشد خان کا 'عقاب' نامی ایک میوزک بینڈ 6 برس قبل بنا تھا جو اب بھی موسیقی پر کام کر رہا ہے۔ ان کے بینڈ میں 7 سازندے ہیں جن میں خان آغا ہارمونیم پر ہوتے ہیں، جاوید طبلے پر، سعدیہ گل ڈھولک پر، محمد دین رباب پر، خالد سیکسو فون پر اور قیصر داد کی بورڈ پر ہوتے ہیں، جبکہ عدنان بانسری بجاتے ہیں۔
راشد ’سندریز کور’ کے نام سے ایک میوزک اکیڈمی بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جہاں روایتی پشتو موسیقی سکھائی جائے گی اور ڈیجیٹل ریکارڈنگ کے حوالے سے تجاویز بھی دی جائیں گی۔ راشد اپنی روایتی پشتو موسیقی کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔
البم کی موسیقی ترتیب دینے والے خان آغا نے بتایا کہ البم کا مقصد صرف پیسے کمانا نہیں بلکہ ایک بامعنیٰ شاعری کے ساتھ روایتی موسیقی کی قدر کرنے کا پیغام دینا ہے۔ انہیں شکایت تھی کہ مقامی میڈیا ان کی موسیقی کی تقاریب کو اتنی کوریج نہیں دیتا جتنی دینی چاہیے۔
گزشتہ سال اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے میوزک میلے میں راشد خان کو بہترین کارکردگی دکھانے پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
راشد کہتے ہیں کہ اگر انہیں بیرون ملک اسکالر شپ ملی تو وہ پشتو موسیقی پر تحقیق کریں گے جس میں امن اور سماجی ربط کو موضوع بنایا جائے گا۔
یہ مضمون 25 مارچ 2017 کو ڈان میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں