چلیے پھر سے وہی گفتگو کرتے ہیں جو ہم ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کرتے آ رہے ہیں: پی آئی اے کے مسئلے کو کس طرح حل کریں؟ کچھ من گھڑت داستانوں سے شروعات کرتے ہیں۔ دنیا کی کئی ایئرلائنز قومی ایئر لائنز ہیں لیکن جو بھی مثالیں دی جاتی ہیں وہ ایسے ممالک کی ہیں جو انہیں خسارے میں چلانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امارات، اتحاد، سعودیہ اور سنگاپور ایئرلائنز ایسے امیر ترین ممالک چلاتے ہیں جنہیں قومی ایئرلائن کے خسارے کو پورا کرنے یا تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب نہیں کرنا پڑتا۔

میڈیا میں گردش کرتی باتوں میں سے ایک کی مثال ہی لیتے ہیں: ملائشیا ایئر لائن۔ وہ تمام لوگ جو اس ایئرلائن کی مثال دے رہے ہیں، کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ ملائشیا کی حکومت نے مسلسل خسارے کے پیش نظر اپنی ایئر لائن کے لیے ایک جرمن کو مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کیا، اور اس شخص کا پہلا بڑا قدم ادارے کے20 ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنا تھا۔

ان میں سے اکثریت کو اسی دن کانٹریکٹ بنیادوں پر دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا گیا، جس وجہ سے ان کی ملازمت کی شرائط تبدیل ہوگئیں اور کارکردگی کو نوکری کے لیے اہم معیار بنا دیا گیا۔ حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں، جو ٹی وی پر آکر ملائیشیا ایئرلائنز کو پاکستان کے لیے ماڈل قرار دیتے ہیں، کا اس وقت کیا رویہ ہوگا جب حکومتِ پاکستان ایک جرمن ایم ڈی کو لے آئے، جس کی تنخواہ یورو میں ہو اور جو آتے ہی ایک ہی جھٹکے میں تمام ملازموں کو فارغ کر کے انہیں کسی کمرشل ادارے جیسی شرائط کے ساتھ دوبارہ ملازمت پر رکھ لے۔

حکومت کو بھی چند چیزوں کی وضاحت کرنی ہوگی۔ جب سابق پی پی پی حکومت نے یہی راستہ اختیار کیا تھا، تب نواز شریف نے اعتراض کیا اور کہا کہ ادارے کو حکومتی تحویل میں رکھتے ہوئے اس کے قرض اتارنے کے لیے چند اثاثے فروخت کر دیے جائیں، اور طیاروں کی تعداد میں اضافہ اور مزید روٹس شامل کیے جائیں۔ آج وہ خود اپنے مشورے پر عمل پیرا نہیں ہیں بلکہ حکومت ملنے کے چند ماہ بعد ہی انہوں نے ایئر لائن کے لیے 'اسٹریٹجک سرمایہ کار' تلاش کرنا شروع کردیا۔

کیا کوئی حکومتی نمائندہ بتانا پسند کرے گا کہ کیوں ان کے سربراہ کا مؤقف اپوزیشن میں کچھ اور تھا اور حکومت میں آکر کچھ اور ہے؟ بلاشبہ قومی ایئرلائن مسائل کا شکار ہے اور ناصر جعفر کے چلے جانے سے بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ ہفتوں پہلے مجھے ناصر سے ان کے آفس میں ملنے کا موقع ملا جہاں ہم نے ایک پورا گھنٹہ پی آئی اے کے مسئلے پر گفتگو کی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر وقت ایئرلائن کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں لگ جاتا ہے تاکہ ایئرلائن کا قرضہ چکایا جاسکے، جو کہ تقریباً ہر ہفتے بڑھ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں قرضوں کی مدتِ ادائیگی بڑھانی ہوگی، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے'۔ ہر ہفتے نئے واجبات بڑھ جاتے ہیں یا نئی رقم قرض خواہوں کو دینی ہوتی ہے جبکہ اعلٰی انتظامیہ کا زیادہ وقت فنڈ اکٹھا کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں کس طرح ادارے میں بہتری لائی جائے؟

اس لیے انہوں نے بہترین چیف لاء افسر کو ملازمت پر رکھا، اور لفتھانسا ایئرلائنز کے چیف آپریٹنگ آفیسر کے ساتھ معاہدہ بھی کیا۔ مجھےمعلوم نہیں کہ اس وقت یہ دونوں شخص کیا سوچ رہے ہیں۔ پھر اپوزیشن اراکین کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کے اسد عمر کی سربراہی میں ان کی تنخواہوں کو ٹی وی پر عوام کے سامنے لائی اور کہا کہ اتنی تنخواہوں پر کسی کو رکھنا اچھا اقدام نہیں تھا۔

جب ہماری بات چیت ہوئی تو جعفر اس بات سے واقف تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ان کی تنخواہیں کافی زیادہ ہیں مگر اپنی ماہرانہ صلاحیتوں سے انہوں نے ہمیں جتنے اخراجات سے بچایا ہے، اس کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ یہ ان کی منطق تھی، اور جو لوگ خود سات ہندسوں پر مشتمل ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں، جو ان دو شخصیات کی تنخواہوں سے کافی زیادہ رقم بن جاتی ہے، انہیں اعلٰی انتظامیہ کی تنخواہوں کو کھلے عام مسئلے کی جڑ قرار دینے سے پہلے سوچنا چاہیے۔

ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے جو ورکرز پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ہاں اس ادارے کے اندر بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اس کے نفع کو نگل رہے ہیں۔ ہاں یونین اپنی طاقت سے انتظامیہ کو اہم فیصلے لینے سے روکتی ہے۔ مگر میں نے ابھی تک اس حوالے سے ٹھوس اعداد و شمار نہیں دیکھے جو یہ بتائیں کہ کیا صرف تنخواہوں اور کالی بھیڑوں کی وجہ سے ہی ایئرلائن تنزلی کا شکار ہے۔

ان دعووں نے مجھے ایک اور فرضی کہانی یاد دلا دی جس کے ایک وقت پر ہم عادی ہوچکے تھے۔ اس من گھڑت داستان کے مطابق بجلی کا بحران شہروں کے پسماندہ علاقوں میں بجلی چوری ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ غریبوں کو پورے مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ 2008 اور 2009 میں ٹی وی اسکرینز سے ایک اور من گھڑت بات پھیلائی جاتی کہ مشرف حکومت نے گرڈ میں ایک بھی میگاواٹ کا اضافہ نہیں کیا تھا۔

دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں، لیکن انہیں غلط ثابت ہونے میں ایک مدت لگ گئی۔ بجلی چوری میں غریبوں کا حصہ صرف 2 فیصد تھا اور جہاں تک مشرف کی بات ہے تو غالباً ان کی حکومت نے تنہا گرڈ میں آج تک کا سب سے زیادہ بجلی کا اضافہ کیا اور پیداواری صلاحیت کو بڑھایا، اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار کے لیے متبادل ایندھن کو بھی بروئےکار لایا گیا۔ بجلی بحران کی بنیادی وجہ مالی اور کسی حد تک انتظامی معاملات تھے۔

پاکستان غیر معینہ مدت تک ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ آج پی آئی اے کے خسارے گردشی قرضوں کے برابر ہو چکے ہیں جس سے ایئر لائن مکمل طور پر اپاہج ہوسکتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اور سیاسی کھیل کا حصہ بننے سے کچھ تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔

آگے بڑھنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ کسی ایسے باصلاحیت شخص کو چارج دیا جائے جس کے پاس درست اقدامات کی صلاحیت موجود ہو۔ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں اور انہیں وہ فیصلے کرنے دینے چاہیئں جن کی ابھی ضرورت ہے۔

جب تک ایسے لوگ ایک طرف سے یونین، دوسری طرف سے اپوزیشن، تیسری طرف سے عدالتوں اور سیاسی مجبوریوں والی حکومت کے درمیان پھنسے رہیں گے، تب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہو پائے گا۔ اور ہم آج سے دس سال بعد بھی یہی پوچھ رہے ہوں گے کہ 'پی آئی آے کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟'

انگلش میں پڑھیں.

[email protected]

ٹوئٹر: @khurramhusain

یہ مضمون ڈان اخبار میں 04 فروری 2016 کو شائع ہوا.

تبصرے (1) بند ہیں

Noman Alam Feb 05, 2016 11:26am
ham haqeeqat se munh chupanay walay log hain khurram bhai